کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 609
نھاني رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم عن بیع ما لیس عندي، فقلت: یأتیني الرجل یرید مني البیع، ولیس عندي فأبتاع لہ من السوق؟ فقال: (( لا تبع ما لیس عندک )) [1] (مشکوۃ) [رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس چیز کو بیچنے سے منع کیا جو میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے عرض کی: میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور مجھ سے کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے، جب کہ وہ چیز میرے پاس موجود نہیں ، پھر میں اسے بازار سے خرید کر دے دیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تیرے پاس نہیں وہ فروخت نہ کرو] اس کے بعد اور بھی اس مضمون کی حدیث ہے اور مشکوۃ میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ اب میں چند صورتیں پیش کر کے ان کے جواب کا انتظار کرتا ہوں ، کتابیں نہیں ہیں ، ورنہ آپ کو ان کے جوابات کی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔ شق اول: بعض خریدار خود دکاندار سے کہتے ہیں کہ تم فلاں کپڑا مجھے دو اور اگر تمھارے پاس نہیں ہے تو دوسری دکان سے مجھے لا دو، اس پر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دکاندار جس دام پر دوسری دکان سے کپڑا لاتا ہے، اسی دام پر خریدار کو دیتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دکاندار، مثلاً آٹھ آنہ گز دوسری دکان سے لاتا ہے اور نو آنہ گز خریدار کو دیتا ہے۔ اگر خریدار خود دوسری دکان سے وہ کپڑا لیتا ہے تو اس کو وہاں بھی ۹ آنہ گز ملتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دکاندار، مثلاً: ۸ آنہ گز لا کر ۹ آنہ گز خریدار کو دیتا ہے، لیکن اگر خریدار خود اسی دکان پر جا کر لیتا ہے تو اس کو ۸ آنہ گز ملتا ہے، یعنی اس تیسری صورت میں خریدار کو نقصان پہنچا۔ شق ثانی: بعض خریدار دکاندار سے خود نہیں لیتے، مگر دکاندار اس کو پھنسائے رہنے کے خیال سے دوسری دکانوں سے اس کی فرمایش کو پورا کر دیتا ہے، اس شق میں بھی وہی تینوں صورتیں ہیں ، جو شق اول میں مذکور ہوئیں ، تو اب کل چھ صورتیں ہیں ، ان میں سے ہر ایک صورت میں دو قسمیں پیدا ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ خریدار کو ان سب باتوں کا علم ہے، جن میں دکاندار اس قسم کے معاملات برتتے ہیں ، دوسری یہ کہ خریدار کو علم نہیں ہے اور وہ ان باتوں کو نہیں جانتے۔ یہ سب بارہ صورتیں ہیں ۔ آیا حدیث کی روسے یہ سب صورتیں ناجائز ہیں یا بعض جائز اور بعض ناجائز؟ بصورت ثانی جواز ناجواز کی صورتوں کی تعیین کر دی جائے دوسرے دکاندار اگر میرے پاس سے لے جائیں اپنے خریدار کو دینے کے لیے تو میں ان کو دوں یا نہ دوں ؟ یہاں کپڑے کے دو بازار ہیں ، ایک خردہ فروشوں کا اور ایک تھوک فروشوں کا، تھوک فروشوں کی دکان مارواڑیوں کی ہے، جتنے خردہ فروش ہیں ، بوقت ضرورت مارواڑیوں سے لے کر بیچا کرتے ہیں ، بسا اوقات یہ صورت پیش آجاتی ہے کہ کسی چیز کی فرمایش کی اور وہ موجود نہیں رہی، تو تھوک فروش یعنی مارواڑیوں کے یہاں سے اسی وقت یا دوسرے وقت لاتے اور خردہ فروش کے طور پر بیچتے ہیں ۔ اگر خریدار دو چار گز کا خریدار ہے، مارواڑیوں سے لینا چاہے تو نہیں دیں گے، تھان دو تھان یا اس سے زیادہ دیں گے اور اسی نرخ سے خریدار کو دیں گے، جس نرخ سے خردہ فروش دکانداروں کو دیتے ہیں ۔ دکاندار لوگ
[1] یہ دو احادیث کے الفاظ ہیں ۔ دیکھیں : سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۲۳۲، ۱۲۳۵) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵۰۳) سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۶۱۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۱۸۷)