کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 606
ہوں ، جب یہ اصناف بدل جائیں تو پھر اگر وہ نقد ہو تو جیسے چاہے بیچو] مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ برتن تانبے و پیتل و کانسی وغیرہ کے بیچتے بھی ہیں اور خریدتے بھی ہیں ، اس میں اُدھار لاتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں تو یہ اُدھار خریدنا بیچنا سود ہے یا نہیں ؟ 2۔ ہم لوگ کبھی اس مال کا پیشگی روپیہ دیتے ہیں اور مال دو یا تین ماہ کے بعد لیتے ہیں ۔ غرض وقت مقرر کر لیتے ہیں اور مال بعد میں تلواتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زبانی بھاؤ کر لیتے ہیں اور مال دو ماہ کے بعد تُلواتے ہیں ، ان دونوں صورتوں میں کونسی صورت جائز ہے؟ جواب: 1۔اُدھار کی صورت جو سوال میں مذکور ہے، جائز ہے، اس میں سود نہیں ہے۔ خود رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے تیس صاع جَو خریدا تھا اور اس یہودی کے اطمینان کے لیے اس کے پاس اپنی خاص زرہ رہن رکھ دی تھی کہ جس وقت جَو کا دام ادا کر دیں گے، اپنی زرہ چھڑا لیں گے، حالانکہ جَو اُن چھ چیزوں میں سے ہے، جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث مندرجہ سوال میں مذکور ہیں ۔ حدیث مذکور کے یہ الفاظ ہیں : ’’عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا قالت: اشتری رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم طعاما من یھودي إلی أجل، ورھنہ درعا لہ من حدید‘‘[1](متفق علیہ) [عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے غلہ ادھار خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس رہن رکھی] ’’وعنھا قالت: توفي رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ودرعہ مرھونۃ عند یھودي بثلاثین صاعا من شعیر‘‘[2](رواہ البخاري) [انھیں سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں فوت ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جَو کے عوض گروی پڑی ہوئی تھی] ’’واعلم أنہ اتفق العلماء علی جواز بیع ربوي بربوي، لا یشارکہ في الجنس مؤجلا و متفضلا، کبیع الذھب بالحنطۃ، والفضۃ بالشعیر، وغیرہ من المکیل، واتفقوا علی أنہ لا یجوز بیع الشییٔ بجنسہ، وأحدھما مؤجل‘‘ (سبل السلام: ۲/ ۲۰) [علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک ربوی چیز کی ادھار اورتفاضل کے ساتھ ایسی ربوی چیز کے ساتھ بیع کرنا جائز ہے جو جنس میں اس کی شریک نہ ہو، جیسے سونے کی گندم کے بدلے اور چاندی کی جَو کے بدلے وغیرہ ماپ والی چیزوں کی بیع کرنا۔ انھوں نے اس پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کسی چیز کی اس کی جنس کے ساتھ بیع جائز نہیں ، جب کہ ان میں سے ایک ادھار ہو]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۹۶۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۶۰۳) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۷۵۹)