کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 601
مچھلی کو فروخت کرنا: سوال: مچھلی کو اپنے تالاب سے نکال کر اس کو بازار میں فروخت کرنا چاہیے یا نہیں ؟ جواب: اپنے تالاب کی مچھلی نکالی ہوئی اپنی مِلک ہے، جہاں چاہے فروخت کر سکتا ہے۔ دباغت سے قبل چمڑے کی خرید و فروخت کرنا: [1] سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ مردار کا چمڑہ بلا مدبوغ خرید و فروخت کرنا اور منفعت و قیمت کھانے و پینے میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: جائز نہیں ہے، جواز کے لیے دباغت شرط ہے۔ في المنتقی (ص: ۸): عن ابن عباس قال: تصدق علی مولاۃ لمیمونۃ بشاۃ فماتت فمر بھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: ھلا أخذتم إھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ؟ فقالوا: إنھا میتۃ؟ فقال: إنما حرم أکلھا۔ رواہ الجماعۃ إلا ابن ماجہ، قال فیہ عن میمونۃ جعلوہ من مسندھا، ولیس فیہ للبخاري والنسائي ذکر الدباغ بحال، وفي لفظ لأحمد: أن داجنا لمیمونۃ ماتت فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : ألا انتفعتم بإھابھا؟ ألا دبغتموہ؟ فإنہ ذکاتہ۔[2] وعن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: أیما إھاب دبغ فقد طھر۔[3] (رواہ أحمد ومسلم وابن ماجہ والترمذي) وعن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أمر أن ینتفع بجلود المیتۃ إذا دبغت، رواہ الخمسۃ إلا الترمذي،[4] وللنسائي سئل النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عن جلود المیتۃ فقال: دباغھا ذکاتھا[5] وللدارقطني عنھا عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: طھور کل أدیم دباغہ۔ قال الدارقطني: إسنادہ حسن کلھم ثقات۔[6] وعن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: ماتت شاۃ لسودۃ بنت زمعۃ فقالت: یا رسول اللّٰه ! ماتت فلانۃ، تعني الشاۃ فقال: لو أخذتم مسکھا۔ قالوا: أناخذ مسک شاۃ قد ماتت؟ فقال
[1] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۱۲۸) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۴۲۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۶۳) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۱۲۰) سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۲۳۴) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۷۲۷) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۶۱۰) مسند أحمد (۳/ ۴۷۶) [3] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۶۶) مسند أحمد (۱/ ۲۱۹) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۱۲۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۶۰۹) [4] مسند أحمد (۶/ ۷۳) [5] سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۲۴۳) [6] سنن الدارقطني (۱/ ۴۹)