کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 599
صدقہ تھا۔ معمر کا بیان ہے کہ پھر یہ جائیداد عبد الله بن حسن کی زیر تولیت رہی، حتی کہ بنو عباس نے اپنے عہدِ حکومت میں اس پر قبضہ کر لیا] 2۔ زمانہ مبارک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں وقف علی الاولاد وقوع میں آیا۔ ’’نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ‘‘ (۲/ ۱۶۸) میں ہے: ’’وفي الخلافیات للبیھقي قال أبو بکر عبد اللّٰه بن الزبیر الحمیدي: تصدق أبو بکر بدارہ بمکۃ علیٰ ولدہ فھي إلی الیوم، وتصدق عمر بربعہ عند المروۃ، و بالثنیۃ علیٰ ولدہ فھي إلی الیوم، وتصدق علي بأرضہ ودارہ بمصر وبأموالہ بالمدینۃ علی ولدہ فذلک إلی الیوم، وتصدق سعد بن أبي وقاص بدارہ بالمدینۃ، وبدارہ بمصر علی ولدہ فذلک إلی الیوم، و عثمان برومۃ فھي إلی الیوم، وعمرو بن العاص بالوھط من الطائف، ودارہ بمکۃ والمدینۃ علی ولدہ فذلک إلی الیوم، قال: وما لا یحضرني کثیر‘‘ انتھی [امام بیہقی رحمہ اللہ کی خلافیات میں ہے کہ ابوبکر عبد الله بن زبیر الحمیدی نے کہا ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مکے میں اپنا گھر اپنی اولاد پر صدقہ (وقف) کیا، لہٰذا وہ آج تک (وقف) چلا آتا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے مردہ کے پاس اور ثنیہ میں واقع اپنا گھر اپنی اولاد پر صدقہ کیا، پس وہ آج تک چلا آتا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے مصر میں اپنی زمین اور گھر اور مدینے میں اپنے اموال اپنی اولاد پر صدقہ کر دیے، جو آج تک چلے آتے ہیں ۔ سعد بن ابی وقاص نے مدینہ اور مصر میں واقع اپنے گھر اپنی اولاد پر صدقہ کر دیے جو آج تک چلے آتے ہیں ، عثمان رضی اللہ عنہ نے رومہ (نامی کنواں وقف کیا) جو آج تک چلا آتا ہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے طائف میں اپنی زمین اور مکہ و مدینہ میں اپنے گھر اپنی اولاد پر صدقہ کر دیے، جو آج تک یوں ہی چلے آتے ہیں اور مزید ایسے بہت سے وقف (اموال و اراضی وغیرہ) جن کا اس وقت مجھے استحضار نہیں ہے] فتح الباری (۱۱/ ۴۱) میں ہے: ’’روی الدارمي في مسندہ من طریق ھشام بن عروۃ عن أبیہ أن الزبیر جعل دورہ صدقۃ علیٰ بنیہ، لا تباع ولا توھب ولا تورث‘‘[1]انتھی و اللّٰه تعالیٰ أعلم [امام دارمی رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ہشام بن عروہ کے واسطے سے روایت کیا ہے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر اپنی اولاد پر صدقہ (وقف) کر دیے، اس شرط پر کہ ان کو بیچا جائے گا، ہبہ کیا جائے گا اور نہ بطورِ وراثت تقسیم کیا جائے گا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (بتاریخ ۱۸؍ ذی الحجہ ۱۳۳۵ھ) ٭٭٭
[1] سنن الدارمي (۲/ ۵۱۸)