کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 581
لا یجوز ذلک في ھذہ المواضع التي وردت إلا لأئمۃ المسلمین المتبحرین في معرفۃ أحکام الدین، ولا یجوز لأفرادھم کائنا من کان‘‘ اھ [ الله سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے شرائع مقرر کیے ہیں ، ان کے لیے حدود کا تعین کیا ہے اور ہر گناہ کی سزا متعین فرمائی ہے۔ چنانچہ قاتل کی سزا یہ ہے کہ اسے (قصاصاً) قتل کیا جائے گا یا اگر قصاص کی شرائط مکمل نہ ہو یا شرائط تو مکمل ہوں ، لیکن وارث دیت لینے پر رضا مند ہوجائیں تو وہ (قاتل) دیت ادا کرے گا۔ مجرم کے اس جرم کے بدلے اس سے قصاص لیا جائے گا، جس جرم میں قصاص واجب ہوتا ہے اور جس جرم میں قصاص واجب نہیں ہوتا تو وہ دیت ادا کرے گا۔ زانی، چور، (زنا کی) تہمت لگانے والا اور نشہ کرنے والا، ان میں سے ہر ایک کے لیے شریعت میں سزا مقرر ہے۔ اسلام کے تمام یا بعض ارکان چھوڑنے والا، جب ان کے ترک پر اصرار کرے اور توبہ نہ کرے تو حسبِ طاقت اس کا قتل واجب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے کسی حرام کام کا ارتکاب کیا یا کسی واجب کو ترک کر دیا، شریعتِ مطہرہ میں ان سے متعلق وضاحت موجود ہے۔ ان شرعی امور میں سے کسی کے بارے میں مال کے ساتھ سزا دینے کا ذکر نہیں ہوا۔ اگر شریعت میں اس قسم کی کوئی سزا مقرر ہوتی ہے، جیسے بعض مسائل میں تاوان کا بڑھ جانا، زکات ادا نہ کرنے والے کا نصف مال چھین لینا اور حرمِ مدینہ کے درخت کاٹنے والے کے کپڑے چھین لینا وغیرہ تو یہ صرف اپنے محل پر مقصور ہے، اس کے غیر کی طرف ان کا تجاوز جائز نہیں ہے، کیونکہ ضرورتِ دینیہ سے جو قطعاً معلوم ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان کے مال کو (اپنے لیے) حرام سمجھنا، اس کی حفاظت کرنا اور اس کی اجازت و رضا کے بغیر اپنے لیے حلال نہ جاننا۔ یقینا وہ جگہیں جن میں مال کے ساتھ سزا دینے کا ذکر ہوا ہے، وہ اس عموم کو خاص کرنے کی طرح ہوں گی، لہٰذا اس سزا کو صرف انہی جگہوں میں مقصور رکھا جائے گا، ان کے علاوہ کسی جگہ ان کا اطلاق جائز نہ ہوگا، ان جگہوں میں بھی، جن میں مالی سزا کا ذکر ہوا ہے، ان سزاؤں کا اطلاق کرنا صرف ان ائمہ مسلمین کے لیے جائز ہے، جو احکامِ دین میں پوری مہارت رکھتے ہیں ، امت کے افراد کے لیے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، ایسا کرنا جائز نہیں ہے] سوال: ایک مرد بیاہا نے اپنی بھاوج سے بدکاری کی تو ۔ حمل رہ گیا۔ عورت کا خسر اور لوگ جب اس عورت سے دریافت کرتے کہ یہ حمل کس کا ہے؟ عورت اپنے دیور کو بتلاتی۔ اس کا سسر مار پیٹ کر نکال دیتا۔ وہ اپنے میکے چلی جاتی۔ جب لڑکی کے ماں باپ دریافت کرتے، وہاں بھی وہ اپنے دیور کو بتلاتی، اس کے ماں باپ اپنے یہاں سے نکال دیتے۔ جب وہ میکے سے آتی، یہاں بھی زدو کوب کی نوبت رہتی، اس کا خاوند پلٹن میں سرکاری ملازم تھا۔ جب اس کو خبر ہوئی، مکان آیا، اپنی عورت زانیہ کو بہت کچھ تنبیہ کیا اور اس سے دریافت کیا کہ یہ بد فعل تونے کس سے کرایا؟ اس نے کہا کہ تمھارے چھوٹے بھائی سے، جو میرا دیور ہوتا ہے۔ چند مسلمان اکٹھے ہو کر ہاتھ پر قرآن