کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 571
[جب شوہر نے اپنی بیوی کے لیے وہ کچھ نہ چھوڑا ہو، جس کی وہ محتاج ہے تو اس کی بیوی کی گلو خلاصی کرانے کے لیے جلدی کرنا اور اس کو آزاد کرا کر اس کی تکلیف کو دور کرنا واجب ہے]
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)
سوال: اس فتوے میں حاکمِ شرع کا لفظ لکھا گیا ہے، اس سے کیا مراد ہے اور اس فتوے کے متعلق کس طرح کارروائی کی جائے؟
جواب: اس فتوے کے متعلق اس طرح کارروائی کی جائے کہ اس مقدمہ میں مرد کی جانب سے مرد کے لوگوں میں سے اور عورت کی جانب سے عورت کے لوگوں میں سے ایک ایک شخص کو جو شرعاً پنچ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، پنچ مقرر کریں ۔ یہ پنچ حاکمِ شرع کا حکم رکھتے ہیں ، پھر ان پنچوں کے روبرو اس مقدمہ کو پیش کریں ۔ پنچ لوگ حسبِ قانونِ شرع عورت سے گواہان لے کر شرعی فیصلہ کر دیں ۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا﴾ [سورۂ نساء، رکوع ۶]
[اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو] و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
سوال: [1] کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کو نکاح کیے ہوئے تقریباً بارہ برس ہوئے، اس نے اپنی بیوی سے اب تک کچھ کلام وغیرہ نہیں کیا اور اس کے نان و نفقہ کی بھی خبر گیری نہیں کرتا، اس سے لوگوں نے بارہا کہا کہ تو اپنی بیوی سے کلام وغیرہ نہیں کرتا اور اس کے نان و نفقہ کی خبر نہیں لیتا تو اس کو طلاق ہی دے دے، اس پر بھی اس نے کچھ توجہ نہیں دی۔ اب اس کی بیوی کے والدین چاہتے ہیں کہ یا تو زید اپنی بیوی سے معاملہ دنیوی رکھے اور نان و نفقہ دے یا طلاق دے دے تو اس پر موافق شرع شریف کے کس طرح عمل کیا جائے۔
جواب: اس صورت میں زید کی بیوی حاکم کے یہاں اس مضمون کا استغاثہ دائر کرے کہ میرے خاوند (زید) کو حکم دیا جائے کہ یا تو میرے حقوق ادا کرے یا مجھے طلاق دے دے، تاکہ میں دوسرا عقد کر کے اپنی زندگی بسر کروں اور اگر زید مفت طلاق نہ دے اور معاوضہ طلب کرے اور اس کی بیوی طلاق کا معاوضہ دے سکتی ہو تو حاکم بمعاوضہ طلاق دلوا دے۔ اگر زید اس پر بھی راضی نہ ہو تو اگر ممکن ہو کہ حاکم فریقین کے لوگوں میں سے ثالث مقرر کر کے اس مقدمہ کو ان ثالثوں کے سپرد کر دے تو کر لے، پھر وہ ثالثین نیک نیتی سے دونوں کے حق میں جو فیصلہ بہتر جانیں کر دیں اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو تو حاکم ان دونوں میں تفریق کرا دے اور بعد تفریق اگر عورت چاہے تو اس کا دوسرا نکاح کرا دیا جائے۔
قال اللّٰه تعالیٰ:﴿وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (سورۂ بقرہ، رکوع: ۲۸)
’’عورتوں کے مردوں پر اتنے ہی حقوق ہیں ، جتنے مردوں کے عورتوں پر ہے۔‘‘
وقال تعالیٰ:﴿وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (سورۂ نساء، رکوع: ۳)
’’اور ان سے بھلے طریقے سے زندگی گزار دو۔‘‘
[1] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۵۲۳)