کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 570
جابر بن عبد الله اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا گیا ہے] کتاب ’’ظفر اللاضي بما یجب في القضاء علی القاضي‘‘ (ص: ۱۲۷) میں ہے: ’’قد أمر اللّٰه سبحانہ وتعالیٰ بإحسان عشرۃ الزوجات، فقال:﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ ونھیٰ عن إمساکھن ضرارا، وأمر بالإمساک بالمعروف والتسریح بالإحسان، فقال:﴿فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ [البقرۃ: ۲۲۹] ونھی عن مضارتھن فقال عزوجل:﴿وَلَا تُضَارُوْھُنَّ﴾ فالغائب إن حصل مع زوجتہ التضرر بغیبتہ جاز لھا أن ترفع أمرھا إلی حکام الشریعۃ، ولھم أن یخلصوھا من ھذا الضرر القانع، ھذا علی تقدیر أن الغائب ترک لھا ما یقوم بنفقتھا، وأنھا لم تتضرر من ھذہ الحیثیۃ بل، من حیثیۃ کونھا لا مزوجۃ ولا أیمۃ، أما إذا کانت متضررۃ لعدم وجود ما تستنفقہ مما ترکہ الغائب فالفسخ لذلک علی انفرادہ جائز، ولو کان حاضرا فضلا عن أن یکون غائبا، وھذہ الآیات التي ذکرناھا، تدل علی ذلک‘‘ انتھی [ الله سبحانہ وتعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ احسان سے رہنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ اس کا فرمان ہے: ’’ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو‘‘ اور انھیں تکلیف دینے کے لیے روکنے سے منع کیا اور ان کو اچھے طریقے سے رکھ لینے اور نیکی کے ساتھ چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے، چنانچہ اس نے فرمایا: ’’پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘ نیز ان کو تکلیف دینے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور انھیں تکلیف نہ دو۔‘‘ اب جو شخص غائب ہے اور اس کے غیب رہنے کی وجہ سے اس کی بیوی کو تکلیف پہنچتی ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ حکامِ شریعت کے سامنے اپنے معاملہ پیش کرے اور ان حکام کے لیے جائز ہے کہ وہ اس مسلسل ضرر سے اس کو گلو خلاصی کرائیں ۔ یہ اس صورت میں ہے جب غائب خاوند نے بیوی کے لیے وہ کچھ چھوڑا ہو جو اس کے نفقے کے قائم مقام بن سکے۔ اب اس کو اس اعتبار سے تو تکلیف نہیں ہے، بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ وہ نہ شادی شدہ تصور ہوتی ہے نہ بے نکاحی، لیکن جب عورت کو اس اعتبار سے ضرر پہنچے کہ غائب خاوند نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی، جسے وہ بطورِ نفقہ استعمال کر سکے تو خالی اس وجہ سے عورت کے لیے نکاح فسخ کروانا بھی جائز ہے، تو جب اس کا خاوند حاضر ہو تو اس کے غائب ہونے کی صورت میں کیوں جائز نہیں ہوگا؟ مذکورہ بالا آیات اس پر دلالت کرتی ہیں ] اسی صفحہ میں ہے: ’’أما إذا لم یترک لھا ما تحتاج إلیہ فالمسارعۃ إلیٰ تخلیصھا وفک أسرھا ودفع الضرر عنھا واجبۃ‘‘ اھ