کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 569
سوال: ایک مرد نے اپنی عورت کو چار برسوں کے قریب سے چھوڑ دیا ہے اور اس کو ماں کہا ہے۔ اس کے پاس آتا ہے اور نہ اس کو کچھ خرچ بھیجتا ہے اور نہ اس کی خبر لیتا ہے۔ تین برسوں سے زیادہ عرصہ ہوتا ہے کہ سفر میں وہ بہت دور جا بیٹھا ہے اور اس کو خط بھی بھیجا گیا عورت کی طرف والوں کا کہ تم طلاق دے دو یا اس سے میل کرو اور زمانے کے موافق اس کی خبر لو، مگر اس نے اس کا کچھ جواب نہیں بھیجا، اس نے پھر ایک خط رجسٹری کر کے اس کے پاس بھیجا، اس کی رسید سرکاری ضابطہ سے ملی، مگر اس نے کچھ جواب اپنے گھر نہیں بھیجا، پھر اس صورت میں اس عورت کے واسطے اس مرد کے پنجے سے رہائی اور کسی دوسرے سے نکاح کر لینے کی کوئی صورت شرع میں ہے یا نہیں ؟
جواب: اس صورت میں اس عورت کے واسطے اس مرد کے پنجے سے رہائی اور کسی مرد سے نکاح کر لینے کی صورت یہ ہے کہ عورت حاکمِ شرع کے روبرو اس بات کی درخواست کرے کہ میرا شوہر اس قدر مدت سے مجھے اپنی ماں کہہ کر غائب ہے۔ میرے لیے کچھ خرچ چھوڑ گیا ہے، نہ خرچ بھیجتا ہے نہ میرے کسی خط کا جواب دیتا ہے۔ اب میرے گزران کی کوئی صورت اس مرد کے نکاح میں رہ کر نہیں ہے، لہٰذا درخواست کرتی ہوں کہ میرا نکاح اس مرد سے فسخ کر دیا جائے کہ عدت کا زمانہ کاٹ کر کسی دوسرے سے اپنا نکاح کر لوں ۔
حاکم مذکور اس عورت سے اس بات کے گواہان لے کر کہ اس کا شوہر فی الواقع اتنی مدت سے غائب ہے نہ خرچ چھوڑ گیا ہے اور نہ خرچ بھیجتا ہے، نکاح مذکور کو فسخ کر کے حکم دے کہ بعد انقضائے عدت کے دوسرے سے اپنا نکاح کر لے۔ شامی (۲/ ۷۱۲ چھاپہ مصر) میں فتاویٰ ’’قاریء الہدایۃ‘‘ سے منقول ہے:
’’سئل عمن غاب زوجھا، ولم یترک لھا نفقۃ؟ فأجاب: إذا أقامت بینۃ علی ذلک وطلبت فسخ النکاح من قاض یراہ ففسخ نفذ‘‘ اھ
[اس عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا شوہر غائب ہو اور اس کے لیے نفقہ نہ چھوڑ کر گیا ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ جب وہ حجت قائم کر دے اور قاضی سے فسخِ نکاح کا مطالبہ کرے، جو اس معاملے کا بخوبی علم رکھتا ہو تو وہ نکاح فسخ کر دے تو اس کا یہ فیصلہ نافذ ہوگا]
ہدایہ (۲/ ۵۸۵ چھاپہ مصطفائی) میں ہے: قال علیہ السلام : (( لا ضرر و لا ضرار في الإسلام )) [1] [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا] ’’نصب الرایۃ لأحادیث الہدایۃ‘‘ (۲/ ۳۸۳) میں ہے:
’’قلت: روي من حدیث عبادۃ بن الصامت وابن عباس وأبي سعید الخدري وأبي ھریرۃ وأبي لبابۃ وثعلبۃ بن مالک وجابر بن عبد اللّٰه وعائشۃ‘‘ اھ
[میں کہتا ہوں کہ اسے عبادہ بن صامت، ابن عباس، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابو لبابہ، ثعلبہ بن مالک،
[1] المعجم الأوسط (۵/ ۳۲۸) نیز دیکھیں : مسند أحمد (۱/ ۳۱۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۳۴۰)