کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 567
انھوں نے امراے عساکر کی طرف ان مردوں کے بارے میں لکھا، جو اپنی عورتوں سے غائب ہیں کہ وہ نفقہ دیں یا طلاق دیں ] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۵؍ جمادی الآخرہ ۱۳۳۵ھ) سوال: زید کو نکاح کیے ہوئے عرصہ چودہ سال کا ہوا اور اس درمیان میں خرچ ایک پیسہ نہیں دیا اور زید کہتا ہے کہ نہ رکھوں گا، نہ طلاق دوں گا، نہ خرچ دوں گا۔ غرض بیوی رکھنے سے زید کو صاف انکار ہے تو اس صورت میں زید کا نکاح ٹوٹا یا نہیں اور زید کی بیوی دوسرا نکاح کر سکتی ہے یا نہیں ؟ جواب: ان صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی نہ زید کا نکاح ٹوٹا اور نہ زید کی بیوی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ ہاں اگر زید اسی قدر کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو نہیں رکھوں گا، تو ممکن تھا کہ زید کا یہ قول بدلالتِ حال یا بقرینۂ دیگر طلاق کنائی سمجھا جاتا، لیکن جب زید اس قول کے ساتھ صاف لفظوں میں طلاق دینے سے انکار کرتا ہے تو اس کا قولِ مذکور طلاق کنائی بھی نہیں ہو سکا۔ اب اس صورت میں یہی ایک چارہ کار ہے کہ زید کی بیوی حاکم سے درخواست کرے کہ ہمارے حقوق زید سے ادا کرائے جائیں ، ورنہ اس سے ہم کو طلاق دلوا دی جائے۔ اگر طلاق بھی نہ دے تو مجھ میں اور زید میں تفریق کر دی جائے کہ میں اس ناقابلِ برداشت مصیبت سے نجات پا جاؤں ۔ ’’نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ‘‘ (۲/ ۳۶۳) میں ہے: ’’حدیث: قال علیہ السلام : (( لا ضرر ولا ضرار في الإسلام )) روي من حدیث عبادۃ بن الصامت و ابن عباس و أبي سعید الخدري وأبي ھریرۃ وأبي لبابۃ وثعلبۃ بن مالک و جابر بن عبد اللّٰه و عائشۃ رضی اللّٰه عنہم ‘‘ اھ [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا‘‘ اسے عبادہ بن صامت، ابن عباس، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابو لبابہ، ثعلبہ بن مالک، جابر بن عبد الله اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا گیا ہے] ’’بلوغ المرام مع شرحہ سبل السلام‘‘ (۲/ ۱۲۵) میں ہے: عن جابر، في حدیث الحج بطولہ قال في ذکر النساء: (( ولھن علیکم رزقھن وکسوتھن بالمعروف )) [1] (أخرجہ مسلم) [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور تمھارے ذمے ان (عورتوں ) کو اچھے طریقے سے کھلانا اور پہنانا ہے] ایضاً (۲/ ۱۲۶) میں ہے: وعن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( الید العلیا خیر من الید السفلیٰ و یبدأ
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۲۱۸)