کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 565
ہے، لیکن ہندہ اس پر بھی برابر بکر کے یہاں جاتی ہے۔ جب اس کو تکلیف سخت ہوتی ہے تو اپنے والدین کے یہاں چلی آتی ہے، لیکن اس قدر تکلیف کی ہندہ اب متحمل نہیں ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس سے جدائی ہوجائے، اس میں خلع کی کیا صورت ہوگی؟ جواب: ہندہ اس حالت میں اپنا کل دینِ مہر بکر کو دے کر موافق اس حدیث کے خلع کرا سکتی ہے: ’’عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: جاء ت امرأۃ ثابت بن قیس بن شماس إلیٰ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فقالت: یا رسول اللّٰه ! ما أنقم علیٰ ثابت في دین ولا خلق إلا أني أخاف الکفر، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( أفتر دین حدیقتہ؟ )) فقالت: نعم، فردت علیہ و أمرہ ففارقھا‘‘[1] (بخاري چھاپہ نظامي، ص: ۷۹۲، باب الخلع، وکیف الطلاق فیہ) ’’ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ثابت بن قیس بن شماس کی بی بی آئیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، پس کہا: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ناخوش نہیں ہوں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے ان کے دین میں اور نہ ان کے خلق میں ، مگر میں ڈرتی ہوں ان کی ناشکری سے، تو فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے: کیا تو واپس کر دے گی ثابت کو وہ باغ جو اس نے تجھ کو مہر میں دیا تھا؟ بولیں : ہاں ، میں واپس کر دوں گی۔ پھر واپس کر دیا اور حکم دیا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو، پس ثابت اور ان کی بی بی باہم جدا ہوگئے۔‘‘ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: عبد النور، عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه سوال: زید نے ایک عورت سے نکاح کیا، اس کے دوسرے روز دوسرے ملک چلا گیا۔ چھ برس انتظار کیا، نہ آیا نہ خرچ روانہ کیا۔ چھ سال کے بعد زید کا پدر زید کے پاس بلانے کی غرض سے گیا، مگر نہ آیا اور نہ خرچ دیا اور نہ طلاق دیا۔ مجبور ہو کر زید کا پدر واپس آیا، جب سے دو برس کا زمانہ اور گزر گیا۔ جملہ آٹھ برس گزرا۔ اب زید کی بی بی کیا کرے؟ نہ آتا ہے اور نہ خرچ بھیجتا ہے نہ طلاق دیتا ہے۔ عورت کہاں اپنی گزر بسر کرے؟ اب دوسرے شوہر سے نکاح کرے یا نہ کرے؟ جواب کتاب الله و سنت سے تحریر فرمائیں ۔ جواب: صورتِ مسؤلہ میں عورت مذکورہ اپنے ضلع کے صاحب جج کے یہاں استغاثہ پیش کرے کہ اس قدر مدت سے میرے شوہر کی یہ حالت ہے کہ نہ میرے حقوق ادا کرتا ہے اور نہ مجھے طلاق دیتا ہے اور میں سخت ضیق میں ہوں ، لہٰذا مستدعی ہوں کہ یا تو میرے شوہر سے میرے حقوق دلوا دیے جائیں یا مجھے طلاق دلوا دی جائے یا مجھ میں اور اس میں تفریق کر دی جائے۔ اگر صاحب جج اس صورت میں طلاق دلوا دیں یا تفریق کر دیں (جبکہ شوہر حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو) تو عورت مذکورہ کی عدت گزر جانے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کر دیا جائے۔ لقولہ تعالیٰ:﴿وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ﴾ [البقرۃ: ۲۳۱]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۹۷۳)