کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 552
باقی بچے وہ (میت کے) قریب ترین مرد (رشتے دار) کا حصہ ہے] لڑکے کی پرورش لڑکے کی نانی کے متعلق ہوگی، اگر وہ اس کی پرورش کی خواستگار ہو، ورنہ اس کے باپ کے متعلق ہوگی اور اس کے اخراجات پرورش صرف باپ دے گا اور لڑکے کا حصہ بھی باپ ہی کی تحویل میں رہے گا۔ ’’ذکر حکم رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في الولد من أحق بہ في الحضانۃ۔ روی أبو داود في سننہ من حدیث عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ عبد اللّٰه بن عمرو أن امرأۃ قالت: یا رسول اللّٰه ! إن ابني ھذا کان بطني لہ وعاء، وثدیي لہ سقاء، و حجري لہ حواء، وإن أباہ طلقني فأراد أن ینزعہ مني؟ فقال لھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : أنت أحق بہ ما لم تنکحي‘‘[1] (زاد المعاد: ۲/ ۲۸۹) [بچے کی نگہداشت اور تربیت کا کون زیادہ حق دار ہے؟ اس کے بارے میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلے کا ذکر: امام ابوداود نے اپنی سنن میں عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث بیان کی ہے کہ ایک عورت نے کہا: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا یہ بیٹا، میرا پیٹ اس کے لیے برتن، میرا سینہ اس کے لیے مشکیزہ اور میرا دامن اس کے لیے پناہ گاہ رہا ہے۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو مجھ سے چھین لے؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو نکاح نہ کرے] ’’والولایۃ علی الطفل نوعان: نوع یقدم فیہ الأب علی الأم، ومن في جھتھا، وھي ولایۃ المال والنکاح، ونوع یقدم فیہ الأم علی الأب، وھي ولایۃ الحضانۃ والرضاع (إلی قولہ) ولما کان النساء أعرف بالتربیۃ وأقدر علیھا وأصبر وأرأف وأفرغ لھا، لذلک قدمت الأم فیھا علی الأب، ولما کان الرجال أقوم بتحصیل مصلحۃ الولد والاحتیاط لہ في البضع قدم الأب فیھا علی الأم‘‘ (زاد المعاد: ۲/ ۲۹۰) [بچے کی ولایت کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم میں باپ کو ماں اور اس کی طرف سے جو بھی ہے، پر مقدم رکھا گیا ہے، یہ مال اور نکاح کی ولایت ہے۔ دوسری قسم میں ماں کو باپ پر مقدم کیا گیا ہے اور یہ پرورش و تربیت اور رضاعت کی ولایت ہے۔۔۔، چوں کہ عورتیں عملی تربیت کو زیادہ جاننے والی ہیں ، اس پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں ، اس پر صبر کرنے والی ہیں ، اس کام کے لیے وہ زیادہ فراغت و فرصت رکھتی ہیں اور بچے پر نرمی کرنے والی ہیں ، اسی لیے اس میں ماں کو باپ پر مقدم کیا گیا ہے۔ جب کہ مرد بچے کی مصلحت کے حصول اور شہوانی معاملات میں اس کی زیادہ حفاظت کرنے والے ہیں ، اس لیے اس کے متعلق ولایت میں باپ کو ماں پر مقدم کیا گیا ہے]
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۶۶۷۶)