کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 549
ڈیڑھ برس ہوچکے اور بعد طلاق دینے کے تین حیض بھی عورت کو آچکا، اس صورت میں یہ طلاق بائن ہوگئی یا نہیں اور اب شوہر پر اس کا نان و نفقہ واجب ہے یا نہیں ؟ جواب: اس صورت میں یہ طلاق بائن ہوگئی اور اب شوہر پر اس کا نان و نفقہ واجب نہیں ہے۔ ہدایہ (چھاپہ مصطفائی) میں ہے: ’’وإذا طلق الرجل امرأتہ طلاقا بائنا أو رجعیا أو وقعت الفرقۃ بینھما بغیر طلاق، وھي حرۃ ممن تحیض، فعدتھا ثلاثۃ أقراء‘‘[1] [جب اپنی بیوی کو طلاق بائن یا طلاقِ رجعی دے دے یا بغیر طلاق کے ان کے درمیان جدائی واقع ہوجائے اور وہ اس مرد، جس سے وہ حیض والی ہوتی ہے، آزاد ہوچکی ہو تو اس کی عدت تین حیض ہے] صفحہ ( ۴۲۳) میں ہے: ’’وإذا طلق الرجل امرأتہ فلھا النفقۃ والسکنیٰ في عدتھا، رجعیا کان أو بائنا‘‘[2] [جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اس کی عدت کے دوران میں اسے نان و نفقہ اور سکنیٰ ملے گا، خواہ طلاق رجعی ہو یا بائن] ’’رد المحتار‘‘ (۲/ ۷۲۶) میں ہے: ’’تلزمہ النفقۃ حتی تحیض ثلاثا‘‘ [اس کے تین حیض آنے تک اس کو نفقہ دینا واجب ہے] نیز ’’رد المحتار‘‘ (۲/ ۷۲۶) میں ہے: ’’النفقۃ تابعۃ للعدۃ‘‘ و اللّٰه أعلم بالصواب [نفقہ عدت کے تابع ہے (یعنی عدت کے دوران میں عورت نفقے اور سکنے کی حق دار ہوگی)] کتبہ: محمد عبد اللّٰه طلاق کے بعد بیوی کہاں رہے؟ سوال: زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو طلاق دے کر اس کی چھوٹی بہن کو نکاح کیا ہے اور مطلقہ کی گود میں لڑکی شیر خوار ہے، اس لڑکی شیر خوار کو دو برس تک دودھ پلانے کے وسیلے سے مطلقہ مذکورہ کو خورو پوش دے کر اپنے گھر میں رکھا ہے اور شرعی حجاب و حفاظت اٹھا دیا ہے، لیکن جانبین سے خرابے میں مبتلا ہونے کی غالب امید ہے۔ آیا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: اگر زید نے ہندہ کو طلاق بائن دی تھی یا طلاق رجعی دی تھی اور عدت گزر چکی ہے تو ان دونوں صورتوں میں زید ہندہ کو اپنے مکان میں نہ رکھے، بلکہ ہندہ کسی دوسری محفوظ جگہ میں رہے۔ عن أبي سلمۃ بن عبد الرحمن عن فاطمۃ بنت قیس رضی اللّٰه عنہا أن أبا عمرو بن حفص طلقھا البتۃ، وھو غائب، فأرسل إلیھا وکیلہ بشعیر فسخطتہ فقال: و اللّٰه مالک علینا من شییٔ، فجاء ت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فذکرت ذلک لہ، فقال: لیس لکِ علیہ نفقۃ، فأمرھا أن تعتد في بیت أم شریک، ثم قال: تلک امرأۃ، یغشاھا أصحابي، اعتدي عند ابن أم مکتوم،
[1] الھدایۃ (۲/ ۲۷) [2] الھدایۃ (۲/ ۴۴)