کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 547
وجمھور أصحاب الحدیث‘‘[1]الخ [یہ مسئلہ مشہور اختلافی مسائل میں سے ہے۔ علما کے اس مسئلے میں کئی مذاہب ہیں ۔ ایک مذہب مطلق طور پر طلاق واقع ہونے کا ہے اور ایک مطلق طور پر واقع نہ ہونے کا ہے۔ ایک موقف متعین اور غیر متعین عمومی طلاق میں فرق کرنے کا ہے۔ بعض نے اس مسئلے میں توقف کیا ہے۔ جمہور علما عدمِ وقوع کے قائل ہیں ۔ امام شافعی، ابن مہدی، احمد، اسحاق، داود اور ان کے اَتباع اور جمہور اصحاب الحدیث کا بھی یہی قول ہے] الحاصل صورتِ مسئلہ میں جواب یہ ہے کہ زید نے جو اپنی بی بی ہندہ کو تین طلاقیں دیں ، وہ تینوں طلاقیں ہندہ پر پڑ گئیں ، اگرچہ دوسری طلاق شرط والی تھی، جس کی شرط وقوع میں آگئی، لہٰذا اب زید رجعت نہیں کر سکتا اور نہ ہندہ بغیر حلالہ کے زید کے لیے حلال ہوسکتی ہے۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۲؍ ربیع الآخر ۱۳۳۵ھ) سوال: ایک شخص نے اپنی بی بی کو کہا کہ تمھارے مہرِ دین چھوڑ دینے کی شرط پر تم کو طلاق دیتے ہیں تادیباً اور اس عورت نے منظور نہ کیا، اس صورت میں اس کو طلاق ہوگی یا نہیں ؟ جواب: اس صورت میں طلاق نہیں ہوئی، کیونکہ جس شرط پر اس شخص نے طلاق دی تھی، وہ شرط پائی نہیں گئی۔ ’’إذا فات الشرط فات المشروط‘‘ و اللّٰه تعالیٰ أعلم [جب شرط نہ پائی گئی تو مشروط بھی ثابت نہ ہوا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۸؍ جنوری ۹۳ء) سوال: زید نے اپنی زوجہ ہندہ سے بحالت نادانستگی و نافہمی کہہ دیا کہ تو اگر بغیر میری اجازت لیے والدہ یا ہمشیرہ کے یہاں گئی تو تجھ کو تین طلاق ہے۔ ازاں بعد ہندہ اپنے والدین کے یہاں باجازت زوج (یعنی زید کے) گئی، پھر زید کسی کار ضروری سے کہیں چلا گیا تھا۔ بروز شبِ براء ت ہندہ اپنی ہمشیرہ کے یہاں جانا چاہتی تھی، لیکن زید چونکہ موجود نہ تھا، زید کے موجود نہ ہونے سے ہندہ جو منکوحہ زید ہے، سخت رنجیدہ اور غمگین ہوئی۔ زید کا برادر جو گھر میں موجود تھا، اس نے ہندہ کو غمگین پا کر ہندہ کو اس کی ہمشیرہ کے یہاں جانے کی اجازت دے دی اور وہ چلی گئی۔ جب زید مکان پر آیا اور اس کے جانے کی خبر معلوم کی کہ بھائی نے اجازت دے دی ہے تو اس نے کہا کہ بھائی کا اجازت دے دینا میری ہی اجازت ہے تو کیا بریں صورت عند الشرع طلاق ہوگئی یا نہیں ؟ اگر واقع نہ ہو تو فہو المراد [یہی مقصود ہے] اگر واقع ہو تو پھر نکاح کا کیا طریق ہے؟ جواب: زید نے جس وقت الفاظِ طلاق مذکورہ سوال استعمال کیے تھے، لفظ ’’میری اجازت‘‘ سے اگر خاص اپنی اجازت مراد لی ہے تو اس صورت میں ہندہ پر طلاق واقع ہوگئی، مگر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی، جس میں عدت کے اندر زید رجوع کر سکتا ہے اور اگر عدت گزر چکی ہو تو بتراضی طرفین دونوں میں نکاح جدید ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں طلاق رجعی واقع ہونے میں شرط یہ ہے کہ ہندہ نکاح کے بعد زید کی مدخولہ ہوچکی ہو، ورنہ صرف ایک طلاق رجعی
[1] فتح الباري (۹/ ۳۸۶)