کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 541
بجائز‘‘ اھ [عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس شخص کی دی ہوئی طلاق جائز نہیں ہے جو نشے میں ہو یا اسے مجبور کیا گیا ہو] اگر وجوہِ مذکورہ بالا سے قطع نظر کر کے کہا جائے کہ ایسی حالت میں طلاق واقع ہو ہی گئی تو صرف ایک طلاق بائن واقع ہوئی، جس میں عدت کے اندر یا بعد عدت بتراضی طرفین نکاح جدید جائز ہے۔ طلاق بائن اس لیے کہ صورت مذکورہ سوال خلع کی صورت ہے اور خلع کی صورت میں طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔ قال اللّٰه تعالیٰ:﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ [البقرۃ: ۲۲۹] [یہ طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے] وقال تعالیٰ:﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ [بقرۃ، ع: ۲۹] [اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو، یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو] وفي مسند الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللّٰه : حدثنا عبد اللّٰه حدثني أبي حدثنا سعد بن إبراھیم حدثنا أبي عن محمد بن إسحاق حدثنی داود بن الحصین عن عکرمۃ مولیٰ ابن عباس عن ابن عباس قال: طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا قال: فسألہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( کیف طلقتھا؟ )) قال: طلقتھا ثلاثا۔ قال: فقال: (( في مجلس واحد؟ )) قال: نعم، قال: (( فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت )) قال: فرجعھا۔[1]الحدیث، و اللّٰه تعالیٰ أعلم [مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ میں ہے: ہمیں عبد الله نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے بیان کیا، وہ عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ، وہ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ بنو مطلب کے ایک فرد رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ، پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ صرف ایک طلاق ہی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کر لو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۱؍ رجب ۱۳۳۲ھ)
[1] مسند أحمد (۱/ ۲۶۵)