کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 540
جواب: ایسی حالت میں کہ شوہر نے جو الفاظ طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی، بخوف جان کہے ہیں ، اس میں نہ تو تصریح اس بات کی ہے کہ کس نے طلاق دی اور نہ اس بات کی کہ کس کو طلاق دی؟ لہٰذا یہ طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لیے کہ اگر ان الفاظ سے شوہر کی یہ مراد ہے کہ دنیا میں کس نے کس کو طلاق دی تو ظاہر ہے کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر یہ مراد ہے کہ میں نے اپنی زوجہ کو طلاق دی تو اس سے طلاق اس وجہ سے واقع نہیں ہوئی کہ اس نے یہ الفاظ بخوفِ جان تلفظ کیے ہیں اور ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ’’نصب الرایۃ لأحادیث الہدایۃ‘‘ (۲/ ۳۰) میں ہے: ’’أخرج أبو داود وابن ماجہ عن صفیۃ بنت شیبۃ قالت: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: ((لا طلاق ولا عتاق في إغلاق )) قال أبو داود: أظنہ الغضب، یعني الإغلاق۔ قال ابن الجوزي: قال ابن قتیبۃ: الإغلاق الإکراہ، و رواہ الحاکم في المستدرک، وقال: علی شرط مسلم۔ قال في التنقیح: وقد فسرہ أحمد أیضاً بالغضب۔ قال شیخنا: والصواب أنہ یعم الإکراہ والغضب والجنون، وکل أمر انغلق علی صاحبہ علمہ وقصدہ، مأخوذ من غلق الباب، واستدل علیہ بحدیث: (( رفع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرھوا علیہ )) وھذا الحدیث تقدم في الصلاۃ بجمیع طرقہ، وأصحھا حدیث ابن عباس، رواہ ابن حبان وابن ماجہ والحاکم في المستدرک وقال: علی شرط الشیخین‘‘ اھ [ابو داود اور ابن ماجہ نے صفیہ بنت شیبہ سے روایت کیا ہے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں ، کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’زبردستی میں نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ غلام آزاد ہوتا ہے۔‘‘ امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ’’اِغلاق‘‘ غضب اور غصے کے معنی میں ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کہا: ابن قتیبہ نے کہا کہ ’’اِغلاق‘‘ کا معنی جبر و اکراہ ہے۔ اس کو امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں روایت کیا اور فرمایا کہ یہ روایت مسلم کی شرط پر ہے۔ تنقیح میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اس کا مطلب غضب و غصہ بیان کیا ہے۔ ہمارے شیخ نے کہا ہے: درست یہ ہے کہ یہ لفظ جبر و اکراہ، غضب و غصہ، جنون اور جو معاملہ جس کا علم و قصد اس کے صاحب پر منغلق ہو، تمام معنوں میں عام ہے۔ یہ لفظ ’’غلق الباب‘‘ (دورازہ بند کر دینا)سے ماخوذ ہے، اس پر درجِ ذیل حدیث سے استدلال کیا گیا ہے: ’’اس ( الله تعالیٰ) نے میری امت سے غلطی، بھول اور وہ گناہ معاف کر دیے ہیں ، جن پر انھیں زبردستی مجبور کیا گیا ہو۔‘‘ یہ حدیث نماز کے باب میں اپنی تمام سندوں سے گزر چکی ہے۔ ان میں سے سب سے صحیح حدیث عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، جسے ابن حبان، ابن ماجہ اور حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے] صحیح بخاری (۳/ ۱۶۹ مصری) میں ہے: ’’وقال ابن عباس: طلاق السکران والمستکرہ لیس