کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 539
یہی تحقیق حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی بھی ہے کہ اغلاق کا لفظ ان سب مذکورہ بالا معنوں کو شامل ہے۔ میرے نزدیک بھی یہی بات صحیح ہے کہ لفظِ اِغلاق ایک عام لفظ ہے، جو ان سب معانی کو شامل ہے۔ پس جب آدمی کسی کام کے کرنے یا کسی بات کے بولنے پر ایسا مجبور کیا جائے کہ اگر اس کام کو نہ کرے یا اس بات کو نہ بولے تو اس کی جان جانے یا ضرب شدید پڑنے کا خوف ہو تو ایسی حالت اغلاق کی حد میں داخل ہے۔ اگر ایسی حالت میں طلاق دے تو وہ طلاق شرعاً نامعتبر ہے۔ نیل الاوطار (ص: ۱۶۱) میں ہے: ’’احتج عطاء بقولہ تعالیٰ:﴿اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ﴾ وقال الشرک أعظم من الطلاق۔ أخرجہ سعید بن منصور عنہ بإسناد صحیح‘‘ یعنی عطا نے اس مسئلہ کو (کہ اکراہ کی حالت کی طلاق نہیں پڑتی ہے) آیتِ کریمہ﴿اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ﴾ سے ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ شرک طلاق سے بڑھ کر ہے اور جب اکراہ کی حالت میں کلمہ شرک منہ سے نکالنا شرعاً نا معتبر ہے، یعنی اس سے وہ شخص مشرک نہیں ہوجاتا، جیسا کہ آیتِ کریمہ سے ثابت ہے تو اکراہ کی حالت کا کلمہ طلاق منہ سے نکالنا بطریقِ اولیٰ نامعتبر ہوگا، یعنی اس سے بطریقِ اولیٰ طلاق نہیں پڑے گی۔ عطاء کے اس قول کو سعید بن منصور نے اسناد صحیح سے روایت کیا ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ سوال: زوجہ نے اپنے شوہر کو یہ دھوکا دیا کہ میرا ناجائز تعلق ایک شخص سے ہوگیا ہے۔ اگر تم مجھے طلاق دے دو تو میں اپنا زرِ مہر تعدادی پنج صد صمار کا معاف کر دیتی ہوں ، اس سے پیشتر طرفین کے، یعنی زوجہ و شوہر میں دیوانی و فوجداری مقدمات بھی ہوچکے تھے۔ اتفاق سے زوجہ کل مقدمات عدالت سے ہار بھی چکی ہے اور زوجہ کے دو برادر اور ایک ہمشیرہ نہایت بد وضع و کوکین باز بھی ہیں ۔ عورت کو ہمیشہ بدوضع خیالات کی ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں اور اس کی کمائی سے اپنے نشہ پانی کا کام چلاتے ہیں ۔ دوم یہ کہ عورت کے شوہر کو اس کے برادران نے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی کہ تم کو طلاق دینی ہوگی، ورنہ جان نہ ہو گی۔ ایسی حالت میں جان کے خوف سے اور عورت کی قسموں پر اور دیوثی کا خیال کر کے شوہر بیچارہ نے تین مرتبہ کہہ دیا کہ طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی، نہ تو عورت مرد کے سامنے ہے اور نہ اس میں کوئی خطاب کیا گیا۔ صرف ظلم کے خوف سے یہ لفظ کہہ دیے گئے ہیں ۔ ایسی حالت میں قرآن و حدیث کے رو سے طلاق واقعی طلاق ہوگئی یا نہیں ؟ اگر ہوگئی تو رجعی ہوئی یا بائن ہوئی یا ثلاثہ ہوئی؟ عورت نے شوہر کو زرِ مہر معاف کر دیا ہے اور ایک اقرار نامہ اسٹامی کاغذ پر بطمانینت شوہر کے لکھ دیا ہے کہ زرِ مہر معاف کرتی ہوں ، طلاق لیتی ہوں اور بنائے مخاصمت اپنی طرف سے یہ قائم کی ہے کہ زوجہ اور شوہر کا آپس میں جی نہیں ملتا ہے، زوجہ شوہر کے گھر میں سات سال اور چھ ماہ رہی ہے، تین بچے شوہر کے صلب سے اور عورت کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ایک حمل اسقاط ہوا اور دو بچہ قائم ہیں ۔ ایک لڑکا پونے چار سال کا اور ایک لڑکی سات سال کی موجود ہے، جن کی پرورش مرد کرتا ہے، جو باپ ہے۔