کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 538
ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی معنی منقول ہیں ، چنانچہ امام زیلعی رحمہ اللہ ’’نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ‘‘ (۲/ ۳۰) میں فرماتے ہیں : ’’قال في التنقیح: وقد فسرہ أحمد أیضاً بالغضب‘‘ یعنی تنقیح میں کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اِغلاق کے معنی غصہ کے کیے ہیں اور صاحبِ قاموس رحمہ اللہ اِغلاق کے معنی اکراہ کے لکھتے ہیں ، چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’الإغلاق الإکراہ‘‘[1] یعنی اِغلاق کے معنی اِکراہ کے ہیں ۔ یہ معنی امام ابن قتیبہ سے بھی منقول ہے، چنانچہ امام زیلعی رحمہ اللہ ’’نصب الرایۃ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’قال ابن الجوزي: قال ابن قتیبۃ: الإغلاق الإکراہ‘‘[2] یعنی ابن جوزی رحمہ اللہ نے کہا کہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اغلاق کے معنی اکراہ کے ہیں ۔ صاحبِ مجمع البحار بھی اِغلاق کے معنی اِکراہ کے لکھتے ہیں ، چنانچہ اس حدیث کے تحت میں ہیں : ’’لا طلاق ولا عتاق في إغلاق أي في إکراہ، لأن المکرہ مغلق علیہ في أمرہ، ومضیق علیہ في تصرفہ، کما یغلق الباب علی أحد‘‘[3] یعنی اغلاق کے معنی اکراہ کے ہیں ، اس لیے کہ مکرہ پر اس کا معاملہ بند کر دیا جاتا ہے اور اس کے تصرف میں تنگی ڈال دی جاتی ہے، جس طرح کسی پر دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ ’’نیل الأوطار‘‘ (۶/ ۱۶۰) میں ہے: ’’فسرہ علماء الغریب بالإکراہ، رویٰ ذلک في التلخیص عن ابن قتیبۃ والخطابي وابن رشید وغیرھم‘‘ یعنی علمائے غریب نے اِغلاق کی تفسیر اکراہ ہی سے کی ہے، چنانچہ تلخیص میں اس کو ابن قتیبہ اور خطابی اور ابن رشید وغیرہم سے روایت کیا ہے۔ امام زیلعی رحمہ اللہ کے استاد فرماتے ہیں کہ اغلاق اکراہ اور غصہ اور جنون اور بہت سی چیزوں کو شامل ہے، چنانچہ امام زیلعی ’’نصب الرایۃ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’قال شیخنا: والصواب أنہ یعم الإکراہ والغضب و الجنون، وکل أمر انغلق علی صاحبہ علمہ وقصدہ، مأخوذ من غلق الباب‘‘[4] یعنی ہمارے شیخ نے فرمایا کہ صواب یعنی ٹھیک بات یہ ہے کہ اغلاق اکراہ کو اور غصہ کو اور جنون کو اور ہر ایسے امر کو شامل ہے، جس کا علم و قصد اس امر والے پر بند ہوجائے اور یہ لفظ غلق الباب سے، جس کے معنی دروازہ بند کر دینے کے ہیں ، ماخوذ ہے۔
[1] القاموس المحیط (ص: ۹۱۵) [2] نصب الرایۃ (۲/ ۳۰) [3] مجمع بحار الأنوار (۲/ ۳۳) [4] نصب الرایۃ (۲/ ۳۰)