کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 536
’’قال ابن عباس: طلاق السکران والمستکرہ لیس بجائز‘‘[1] (صحیح بخاري، مصري: ۳/ ۱۶۹) [عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس شخص کی دی ہوئی طلاق جائز نہیں ہے جو نشے میں ہو یا اسے مجبور کیا گیا ہو] ’’أخرجہ أبو داود و ابن ماجہ عن صفیۃ بنت شیبۃ عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: (( لا طلاق ولا عتاق في إغلاق ))° قال أبو داود: أظنہ الغضب۔ یعني الإغلاق۔ قال ابن الجوزي: قال ابن قتیبۃ: الإغلاق الإکراہ، و رواہ الحاکم في المستدرک، وقال: علی شرط مسلم۔ قال في التنقیح: وقد فسرہ أحمد أیضاً بالغضب۔ قال شیخنا: والصواب أنہ یعم الإکراہ والغضب والجنون، وکل أمر انغلق علی صاحبہ عملہ وقصدہ، مأخوذ من غلق الباب‘‘[2] (نصب الرایۃ لأحادیث الھدایۃ للعلامۃ الزیلعي: ۲/ ۳۰) [ابو داود اور ابن ماجہ نے صفیہ بنت شیبہ سے روایت کیا ہے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں ، کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’زبردستی میں نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ غلام آزاد ہوتا ہے۔‘‘ امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ’’اِغلاق‘‘ غضب اور غصے کے معنی میں ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کہا: ابن قتیبہ نے کہا کہ ’’اِغلاق‘‘ کا معنی جبر و اکراہ ہے۔ اس کو امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں روایت کیا اور فرمایا کہ یہ روایت مسلم کی شرط پر ہے۔ تنقیح میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اس کا مطلب غضب و غصہ بیان کیا ہے۔ ہمارے شیخ نے کہا ہے: درست یہ ہے کہ یہ لفظ جبر و اکراہ، غضب و غصہ، جنون اور جو معاملہ جس کا علم و قصد اس کے صاحب پر منغلق ہو، تمام معنوں میں عام ہے۔ یہ لفظ ’’غلق الباب‘‘ سے ماخوذ ہے] ’’في الحدیث: (( لا طلاق ولا عتاق في إغلاق )) أي في إکراہ، و معنی الإغلاق الإکراہ، لأن المغلق مکرہ علیہ في أمرہ، ومضیق علیہ في تصرفہ، کأنہ یغلق علیہ الباب، و
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۱۹۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۰۴۶) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۱۹۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۰۴۶)نصب الرایۃ (۳/ ۲۱۸)