کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 529
وفي مسند الإمام أحمد بن حنبل رحمه اللّٰه : ’’حدثنا عبد اللّٰه حدثني أبي حدثنا سعد بن إبراھیم حدثنا أبي عن محمد بن إسحاق حدثني داود بن الحصین عن عکرمۃ مولیٰ ابن عباس عن ابن عباس قال: طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا قال: فسألہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( کیف طلقتھا؟ )) قال: طلقتھا ثلاثا۔ قال: فقال: (( في مجلس واحد؟ )) قال: نعم، قال: (( فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت )) قال: فرجعھا‘‘[1] الحدیث و اللّٰه تعالیٰ أعلم [مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ میں ہے، ہمیں عبد الله نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے بیان کیا، وہ عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ، وہ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ بنو مطلب کے ایک فرد رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ، پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ صرف ایک طلاق ہی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کر لو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا] قال اللّٰه تعالیٰ:﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ [البقرۃ: ۲۲۹] [یہ طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے] وقال تعالیٰ:﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ [بقرۃ، ع: ۲۹] [اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو، یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۲؍ جمادی الاول ۱۳۳۲ھ) سوال: زید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک وقت میں دے دیں ۔ اب دریافت کرنا ہے کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آیا وہ رجوع کر سکتا ہے یا نہیں ؟ جواب صرف قرآن و حدیث سے مدلل و مفصل ہو۔ جواب: اس صورت میں زید اگر اس کے قبل کبھی اور دو طلاقیں نہ دے چکا ہو تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے، بشرطیکہ بیوی مذکورہ زید کی مدخولہ بعد نکاح کے ہو چکی ہو اور اگر عدت گزر چکی ہو تو بتراضی طرفین دونوں میں نکاح کی تجدید ہو سکتی ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:
[1] مسند أحمد (۱/ ۲۶۵)