کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 528
[اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو، یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو] وفي مسند الإمام أحمد (۱/ ۲۶۵): ’’حدثنا عبد اللّٰه حدثني أبي حدثنا سعد بن إبراھیم حدثنا أبي عن محمد بن إسحاق حدثني داود بن الحصین عن عکرمۃ مولیٰ ابن عباس عن ابن عباس قال: طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا قال: فسألہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( کیف طلقتھا؟ )) قال: طلقتھا ثلاثا۔ قال: فقال: (( في مجلس واحد؟ )) قال: نعم، قال: (( فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت )) قال: فرجعھا‘‘ الحدیث و اللّٰه تعالیٰ أعلم [مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ میں ہے، ہمیں عبد الله نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے بیان کیا، وہ عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ، وہ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ بنو مطلب کے ایک فرد رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ، پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ صرف ایک طلاق ہی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کر لو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۳؍ صفر ۱۳۲۸ھ) سوال: زید نے اپنی بیوی کو ایک جلسہ میں تین طلاقیں لکھ کر اس کے پاس بھیج دیا، جس کو ایک سال سے زائد ہوا۔ اس خصوص میں سوال یہ ہے کہ یہ طلاق تصور کیا جائے گا یا نہیں ؟ اگر طلاق متصور ہوگا تو ایک یا تین اور ایک ہونے پر رجعت کی کیا صورت ہوگی؟ یہ بھی واضح ہو کہ اب تک عورت مطلقہ نے نکاح نہیں کیا ہے اور اب زید کے ساتھ رجعت کرنے کو راضی ہے۔ جواب: گو اس طریقے سے طلاق دینا ناجائز ہے، مگر یہ طلاق تصور کیا جائے گا اور ایک طلاق متصور ہوگا اور اس تقدیر پر رجعت کی یہ صورت ہوگی کہ اگر زید کی بیوی مدخولہ ہوچکی ہو تو زید عدت کے اندر دو معتبر آدمیوں کے سامنے کہہ دے کہ میں نے جو اپنی فلاں بیوی کو طلاق دی تھی، اس کو واپس لے لیا ہے اور اگر عدت گزر چکی ہو یا زید کی بیوی مذکور مدخولہ نہ ہو چکی ہو تو ان دونوں صورتوں میں بتراضی طرفین نکاحِ جدید ہوسکتا ہے۔