کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 527
تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’کیا میری موجودگی میں الله تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جاتا ہے؟‘‘ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے قتل نہ کر دوں ؟] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۲؍ ذیقعدہ ۱۳۲۹ھ)۔ الجواب صحیح۔ سید محمد عبدالسلام۔ الجواب صحیح سید أبو الحسن۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: أبو یوسف محمد عبدالمنان الغازیفوي۔ سوال: زید نے اپنی بیوی ہندہ کو ایک جلسہ میں تین مرتبہ طلاق دیا، بلکہ تین مرتبہ سے بھی زیادہ طلاق دیا ہے، مگر تعداد یاد نہیں ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ رکھی جائے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا۔ جواب: یک طلاق واقع شود او را نکاح کردن درست ست بغیر وطی کہ اگر عدت باقی است رجعت کند و الا تجدیدِ نکاح کند۔ [اس صورت میں ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔ اب اگر عدت باقی ہے تو وہ اس میں رجوع کر سکتا ہے اور اگر عدت گزر چکی ہو تو وہ تجدیدِ نکاح کر سکتا ہے] دستخط: نور الحق غزنوی۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ سوال: زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو ایک وقت اور ایک جلسہ میں تین طلاق دیں ۔ بعدہ زید نے یہ سمجھ کر کہ گو میں نے تین طلاق آنِ واحد میں سنت کے خلاف دی ہیں ، لیکن اصل مسئلہ میں ایک طلاق واقع ہوئی ہے، لہٰذا اس نے پھر رجوع کر لیا، اس صورت میں بعض اشخاص زید پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زوجہ تیری طالق ہوگئی ہے ، بغیر حلالہ کے رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا تحریر فرمائیے کہ ازروئے شرع شریف کے رجوع کرنا زید کا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: زید نے جس طریق سے طلاقیں دیں ہیں ، یہ ناجائز طریق ہے۔ ایک وقت میں دو یا تین طلاقیں دینا سخت ممنوع ہے، لیکن صورتِ مسؤل عنہا میں ایک ہی طلاق واقع ہوئی، جس میں رجوع کرنا زید کا جائز ہے۔ ہاں جب تین طلاقیں اس طرح دی جائیں کہ اولاً صرف ایک طلاق دے اور عدت کے اندر رجوع کر لیا یا عدت کے اندر رجوع نہیں کیا، لیکن بعد انقضاے عدت کے بتراضی طرفین پھر سے نکاح کر لیا۔ پھر کبھی کسی ضرورت سے دوسری طلاق دے دی اور اس سے بھی عدت کے اندر رجوع کر لیا یا بعد انقضاے عدت بتراضی طرفین پھر سے نکاح کر لیا۔ پھر کبھی ضرورت پیش آئی تو تیسری طلاق دے دی تو اب اس تیسری طلاق کے بعد وہ عورت اس طلاق دینے والے شوہر کے لیے بغیر باضابطہ حلالہ (حقیقی دوسرا نکاح) کے کسی طرح حلال نہیں ہوسکتی۔ قال اللّٰه تعالیٰ:﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ [البقرۃ: ۲۲۹] [یہ طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے] وقال تعالیٰ:﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ [بقرۃ، ع: ۲۹]