کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 525
وقال تعالیٰ:﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ [بقرۃ، ع: ۲۹] [اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو، یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو] ’’حدثنا عبد اللّٰه حدثني أبي ثنا سعد بن إبراھیم ثنا أبي عن محمد بن إسحاق حدثني داود بن الحصین عن عکرمۃ مولی ابن عباس عن ابن عباس قال: طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا۔ قال: فسألہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( کیف طلقتھا؟ )) قال: طلقتھا ثلاثا۔ قال: فقال: (( في مجلس واحد؟ )) قال: نعم۔ قال: (( فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت )) قال: فرجعھا‘‘ الحدیث، و اللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔[1] [ہمیں عبد الله نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے بیان کیا، وہ عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ، وہ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ بنو مطلب کے ایک فرد رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ، پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ صرف ایک طلاق ہی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کر لو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۰؍ محرم ۱۳۲۷ھ) سوال: زید نے اپنی زوجہ ہندہ کے روبرو بحالتِ فرطِ غضب بیک جلسہ تین مرتبہ کہا کہ طلاق دیا، طلاق دیا، طلاق دیا اور زید کا یہ بیان ہے کہ میرا ارادہ زوجہ کو طلاق دینے کا تھا، مگر رجعی، یعنی غیر بائن، اور طلاق سنی کا طریقہ اس کو معلوم تھا اور اس کا خیال اور عقیدہ پہلے سے اور اس وقت بھی مستحکم تھا کہ طلاق بائن صرف طریقہ معینہ مسنونہ کے ساتھ ہوتا ہے اور طلاق بدعی بائن نہیں ہوتا ہے، بلکہ رجعت کا اختیار ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حالاتِ مذکورہ بالا میں طلاق بائن ہوا یا نہیں ؟ مطابق حکمِ خدا و رسول کے جواب عنایت ہو۔
[1] مسند أحمد (۱/ ۲۶۵)