کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 524
وفي مسند الإمام أحمد بن حنبل رحمه اللّٰه : ’’حدثنا عبد اللّٰه حدثني أبي حدثنا سعد بن إبراھیم حدثنا أبي عن محمد بن إسحاق حدثني داود بن الحصین عن عکرمۃ مولیٰ ابن عباس عن ابن عباس قال: طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا قال: فسألہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( کیف طلقتھا؟ )) قال: طلقتھا ثلاثا۔ قال: فقال: (( في مجلس واحد؟ )) قال: نعم، قال: (( فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت )) قال: فرجعھا‘‘[1]الحدیث و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ میں ہے: ہمیں عبد الله نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے بیان کیا، وہ مولی ابن عباس عکرمہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ بنو مطلب کے ایک فرد رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ، پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ صرف ایک طلاق ہی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کر لو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۷؍ رمضان المبارک ۱۳۲۹ھ)
سوال: تکرار کی حالت میں زید نے ہندہ کو بطور تہدید کے سمجھانے کے ارادے سے یہ چاہا کہ بیوی، یعنی ہندہ اصلاح پر آئے۔ ہندہ بی بی یہ کہتی تھی کہ اصل کے آپ ہوں ، تو طلاق دیں ۔ کئی مرتبہ ہندہ نے یہ کلام کہا تو شوہر کا ارادہ نہیں تھا کہ طلاق دے۔ محض ڈرانے کی وجہ سے تین طلاق دیا، مگر بعد میں دونوں آدمی یہ چاہتے ہیں کہ کوئی شرع سے پناہ کی صورت ہو تو اچھی بات ہے، چونکہ دونوں میاں بی بی راضی ہیں اور اس واقعہ سے چار خواہ پانچ روز کے بعد یہ خیال ہوا کہ ہم نے کیا کیا؟
جواب: اس صورت میں کہ زید نے ہندہ کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ، گو گنہگار ہوا، جس سے زید کو استغفار کرنا چاہیے، مگر ہندہ پر ایک طلاق رجعی پڑ گئی۔ اگر عدت نہ گزری ہو تو زید رجعت کر سکتا ہے اور عدت گزر چکی ہو تو بتراضی طرفین دونوں میں جدید نکاح ہوسکتا ہے۔
قال اللّٰه تعالیٰ:﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ [البقرۃ: ۲۲۹]
[یہ طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے]
[1] مسند أحمد (۱/ ۲۶۵)