کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 522
عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ، پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ صرف ایک طلاق ہی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کر لو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۰؍ ذیقعدہ ۱۳۳۰ھ) سوال: ایک شخص مسمی عبدالغنی جس کی صرف ایک زوجہ مسماۃ زہرہ ہے، اپنی زوجہ سے ناخوش ہوا، مگر اس کے سامنے کچھ نہیں کہا، وہ باہر گیا، دو آدمی کو بلا کر ان سے یہ کہا کہ ہم نے اس کو طلاق دیا، طلاق دیا، طلاق دیا، اس کو بیٹی سمجھتے ہیں ۔ فقط اس صورت میں طلاق ہوا یا نہیں ؟ اگر طلاق ہوا تو کیا طلاق ہوا؟ ایک طلاق ہوا یا تین طلاق ہوا اور زوجہ عبدالغنی بلا حلالہ کے، یعنی بغیر دوسرے سے نکاح کے عبد الغنی کے پاس رہ سکتی ہے یا نہیں اور بلا حلالہ کے عبدالغنی کے پاس رہ سکے تو تجدیدِ نکاح کی عبدالغنی کے ساتھ حاجت ہوگی یا نہیں ؟ و کفارہ ظہار بھی دینا ہوگا یا نہیں ؟ واضح رہے کہ عبدالغنی کا لفظ ’’ہم اسے بیٹی سمجھتے ہیں ‘‘ تک ہے، جس کے اوپر لکیر کھینچی ہے۔ عبدالغنی نے ان دونوں آدمی سے یہ کلام پہنچانے کو زوجہ تک نہیں کہا تھا اور نہ لفظ زوجہ کا کہا تھا اور نہ نام زوجہ کہا تھا، وقت کلام کے صرف وہی لفظ بولا تھا، جو اوپر مذکور ہوا۔ جواب: اس صورت میں ایک طلاق واقع ہوئی اور حلالہ کی حاجت نہیں ہے اور نہ کفارہ لازم ہے۔ اگر عدت نہ گزری ہو تو عبدالغنی رجعت کر سکتے ہیں ، یعنی طلاق مذکور واپس لے سکتے ہیں اور صرف اس قدر کہنے سے کہ ہم نے جو اپنی زوجہ مسماۃ فلانہ کو طلاق دیا تھا، اس طلاق کو واپس لیا، رجعت ہوجائے گی اور اگر عدت گزر گئی ہو اور دونوں باہم راضی ہوں تو تجدیدِ نکاح کی ضرورت ہے۔ صحیح مسلم (۱/ ۴۷۷ چھاپہ دہلی) میں ہے: ’’عن ابن عباس قال: کان الطلاق علی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وأبي بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر کانت لھم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیھم فأمضاہ علیھم‘‘[1]انتھی و اللّٰه أعلم بالصواب [عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ اس معاملے (طلاق) میں جس میں انھیں مہلت حاصل تھی، جلدی کرنے لگے ہیں ۔ اگر ہم (ان کی تین طلاقوں کو، تین طلاقیں ہی) ان پر نافذ کر دیں (تو بہتر ہے) چنانچہ انھوں نے اس کو نافذ کر دیا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ مہر مدرسہ۔ ہذا الجواب صحیح ثابت عندي۔ کتبہ: أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن المبارکفوري۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۴۷۲)