کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 512
مگر احتیاطاً اگر عورت عدت میں ہے تو رجعت کر لے اور اگر عدت گزر گئی ہے تو تجدیدِ نکاح کر لے۔ و الله أعلم وعلمہ أتم۔ کتبہ أضعف عباد المعبود المدعو بمحمود، حماہ اللّٰه عن شر الحسود۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ مہر مدرسہ۔ المجیب مصیب عندي و اللّٰه أعلم و علمہ أتم۔ أبو محمد إبراہیم۔ الفاظِ کنایات میں طلاق کی نیت ہونا ضروری ہے: سوال: جو شخص اپنی بی بی کو لفظِ طلاق کے بدلے زبان ہندی میں کہے کہ نکل جا یا ہم سے تم سے کوئی واسطہ نہیں اور اس لفظ سے معنی طلاق کا سمجھے تو اس کے کہنے سے بی بی اس کے نکاح سے باہر ہو جائے گی یا نہیں ؟ جواب: ایسے الفاظ کنایاتِ طلاق سے ہیں ۔ اگر بہ نیتِ طلاق کہے جائیں گے تو طلاق پڑ جائے گی، وگرنہ نہیں ۔ سوال: زید کی ہندہ سے شادی ہوئی اور ایک لڑکا ہوا۔ بعدہ زید کو ہندہ کی بد وضعی ثابت ہوئی اور دو ایک مرتبہ زید نے خود اپنی آنکھ سے اس کی بد چلنی دیکھ لی اور تمام برادری میں بھی اس کی بد وضعی مشہور ہوگئی تو زید نے ہندہ کو اس کے مکان پر چھوڑ کر بہت دور کسی ملک میں بود و باش اختیار کی، یہاں تک کہ عرصہ چودہ پندرہ برس کا ہوگیا اور اس کا لڑکا جوان ہوگیا۔ اب اس کے ملک کے لوگ جب وہاں گئے تو اس سے کہا کہ اپنی عورت کے نان و نفقہ کی خبر کیوں نہیں لیتا؟ تو اس نے جواب دیا کہ مجھے عورت سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ایک گواہ نے تو یہ کہا اور دوسرے گواہ نے یہ کہا کہ میں نے جب اس عورت کے نان و نفقہ کے بارے میں کہا تو اس نے کہا کہ مجھے عورت سے کیا کام ہے اور اس کے گاؤں کی عورتوں نے کہا کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے اس عورت سے کوئی واسطہ نہیں اور اب عرصہ پندرہ برس کے بعد وہ عورت اپنے گاؤں سے پھر شہر میں آئی تو اور ایک دوسرے شخص سے واسطہ ہوگیا اور حاملہ بھی ہوگئی، اس صورت میں اب اس شخص سے جس کا حمل ہے، اس عورت کا اس سے نکاح درست ہے یا نہیں اور طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟ جواب: اگر زید نے فی الواقع اپنی عورت ہندہ کی نسبت یہ الفاظ ’’مجھے عورت سے کوئی واسطہ نہیں ‘‘ ’’مجھے عورت سے کیا کام؟‘‘ کہے ہیں اور زید کی نیت ان الفاظ کے کہنے سے ہندہ کو طلاق دینے کی تھی تو اس صورت میں ہندہ پر طلاق واقع ہوگئی اور انقضاے عدت کے بعد ہندہ کا نکاح اس شخص سے درست ہے، جس کا حمل کہا جاتا ہے، مگر اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں ، مذکور و ہندہ، نکاح کے قبل ایسے فعلِ بد سے سچی توبہ کر ڈالیں ۔ ’’وأما الضرب الثاني وھو الکنایات، فلا یقع بھا الطلاق إلا بالنیۃ أو بدلالۃ الحال، لأنھا غیر موضوعۃ للطلاق، بل تحتملہ وغیرہ، فلا بد من التعیین أو دلالتہ‘‘[1](ہدایہ) [رہی (طلاق کی) دوسری قسم تو وہ کنایات ہے، ان کنایات کے ساتھ تب ہی طلاق ہوتی ہے، جب نیت طلاق دینے کی ہو یا صورتِ حال کی دلالت کے ساتھ، کیونکہ یہ الفاظ (کنایات) طلاق (دینے) کے لیے
[1] الھدایۃ (۱/ ۲۴۱)