کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 511
اس کے بعد ظاہر ہو کہ وہ نکاح فاسد نہ تھا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ فتاویٰ عالمگیری (۱/ ۵۳۰ مطبوعہ کلکتہ) میں ہے: ’’ظن الزوج أن نکاح امرأتہ وقع فاسداً، فقال: ترکت ھذا النکاح الذي بیني وبین امرأتي، فظھر أن نکاحھا کان صحیحا، لا تطلق امرأتہ‘‘ و اللّٰه أعلم بالصواب [خاوند نے یہ گمان کیا کہ اس کا بیوی سے نکاح فاسد واقع ہوا ہے تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ہونے والے اس نکاح کو ترک کر دیا۔ پھر یہ ظاہر ہوا کہ اس کا اس (عورت) کے ساتھ نکاح صحیح تھا تو اس کی بیوی کو طلاق نہیں ہوگی] حررہ العبد الضعیف الراجي رحمۃ ربہ القوي أبو الخیر محمد ضمیر الحق الآروي، تجاوز اللّٰه عن ذنبہ الجلي والخفي۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه الغازیفوري۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: و صیت علی نگینوي۔ الجواب صحیح۔ شیخ حسین بن محسن عرب۔ سوال: زید نے اپنی زوجہ کو بلا قصد و بلا نیت دلی صرف ایک بار ایک موقع میں یہ لفظ اپنی زوجہ کو کہا کہ اگر اس کی زوجہ زید سے بولے تو طلاق ہے و بعد اس کے زید کی زوجہ زید سے بولی اور اس نے، یعنی زوجہ نے اس طلاق کو قبول نہیں کیا تو ایسی حالت میں زید کو مباشرت کرنا اپنی زوجہ سے حرام ہوگا یا کیا؟ اور اگر حرام نہیں ہے تو کوئی کفارہ وغیرہ عائد ہوگا یا نہیں ؟ جواب اس کا جلد درکار ہے۔ راحت حسین خان۔ سب رجسٹرار، مقام بہبوہ، ضلع شاہ آرہ (۱۴؍ شوال ۱۳۰۹ھ) جواب: صورت مسؤلہ میں ظاہراً طلاق نہیں واقع ہوگی، اس لیے کہ طلاق متعلق بہ تلفظ ہے اور صورت مسؤلہ میں طلاق دہندہ نے جو تلفظ کیا ہے، صرف اسی قدر کیا ہے کہ زید کی زوجہ اگر اس سے بولے تو طلاق ہے اور اس نے یہ نہیں کہا ہے کہ کس کو طلاق ہے، اس کی زوجہ کو یا کسی اور کو؟ اس لیے طلاق نہیں ہوگی اور علاوہ اس کے اس کا یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ زید کی زوجہ اگر اس سے بولے تو طلاق دینا مجھ پر لازم ہے اور یہ وعدہ ہوا اور طلاق کا وعدہ کرنے سے طلاق نہیں پڑتی ہے۔ اس کے سوا اس میں اور بھی عدمِ وقوعِ طلاق کا احتمال نکل سکتا ہے اور جب اس میں جس طرح وقوعِ طلاق کا احتمال ہے، ویسا ہی عدمِ وقوع کا بھی ہے، تو اب وقوعِ طلاق مشکوک فیہ ہوگا اور یہ قاعدہ ہے کہ جو بات یقینی ہوتی ہے، وہ شک سے زائل نہیں ہوتی اور یہ ظاہر ہے کہ پہلے اس عورت کا غیر مطلقہ ہونا یقینی تھا اور اب اس لفظ کے کہنے سے شک پڑ گیا تو موافق قاعدہ مذکورہ وہ عورت مطلقہ نہیں ہوسکتی۔’’در المختار‘‘ (ص: ۲۶۳) کی عبارت سے بھی ایسا ہی ظاہر ہے کہ طلاق اس صورت میں واقع نہیں ہوگی۔ وہ عبارت یہ ہے: ’’لو قال: إن خرجت یقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم یقع لترکہ الإضافۃ إلیھا‘‘ [اگر اس نے کہا کہ اگر تو نکلی تو طلاق واقع ہوجائے گی یا یہ کہا کہ میری اجازت کے بغیر نہ نکلنا، بلاشبہ میں نے طلاق کی قسم اٹھائی ہے، پھر وہ (اس کی بیوی) نکلی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ اس (کے شوہر) نے اس (عورت) کی طرف طلاق کی نسبت نہیں کی]