کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 510
’’الطلاق علیٰ ضربین: صریح و کنایۃ‘‘ [طلاق کی دو قسمیں ہیں : صریح اور کنائی] مگر جب تک کہ طلاق عورت کی طرف بالخطاب یا بالاضافہ منسوب نہ ہو، واقع نہیں ہوتی۔ در مختار کے (ص: ۱۹۳) کے ’’باب الصریح‘‘ میں ’’صریحہ ما لم یستعمل إلا فیہ کطلقتک، وأنت طالق و مطلقۃ‘‘ کے تحت میں مرقوم ہے: ’’لو قال: إن خرجت یقع الطلاق، أو لا تخرجي إلا بإذني، فإني حلفت بالطلاق، فخرجت لم یقع لترکہ الإضافۃ إلیھا‘‘[1] [اگر اس نے کہا: اگر تو نکلی تو طلاق واقع ہوجائے گی یا میری اجازت کے بغیر نہ نکلنا، کیوں کہ میں نے طلاق کی قسم اٹھائی ہے۔ پس وہ نکلی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ اس نے اس (عورت) کی طرف طلاق کی نسبت نہیں کی] کتبِ احادیث سے بھی طلاق کا عورت کی طرف ہی منسوب ہونا سمجھا جاتا ہے۔ صحیح بخاری (۲/ ۷۹ مطبوعہ احمدی) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا بنت الجون سے بخطاب یہ فرمانا مروی ہے: (( لقد عذت بعظیم، الحقي بأھلک )) [2] ملخصاً [تو نے بہت عظیم ہستی کے ساتھ پناہ پکڑی ہے، لہٰذا تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا] ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ (ص: ۲۷۶ مطبوعہ بمبئی) میں موطا امام مالک سے منقول ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے بالاضافۃ یہ کہا: ’’إني طلقت امرأتي مائۃ تطلیقۃ۔۔۔‘‘[3] ملخصاً [ بلاشبہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں ۔۔۔] اب میں کہتا ہوں کہ صورت مسؤلہ میں کسی طرح طلاق نہیں واقع ہوئی، کیونکہ اس مرد کا یہ کہنا کہ مہر دے دیا تو طلاق ہوگئی، دو حال سے خالی نہیں ، یا بہ نیتِ طلاق ہے یا بلا نیت۔ شق اول میں طلاق اس عورت کی طرف منسوب نہ ہونے کی وجہ سے واقع نہیں ہوئی۔ شق ثانی میں دو احتمال ہیں ، یا تو قول مذکور سے اس کا صرف یہ خبر دینا مقصو ہے کہ ادائے مہر کے وقت طلاق کی نیت غیر واقع امر کی خبر دینا ہے، کیونکہ بے زبان سے کچھ کہے مجرد مہر (جو اس پر واجب تھا) دے دینے سے طلاق نہیں ہوتی، اس لیے یہ خبر غیر معتبر ٹھہری۔ دوسری صورت میں خود وہ مسئلہ ہی غلط ہے۔ ایسی حالت میں تو اگر اس مسئلے کی صحت کے گمان پر زبان سے بھی عورت کی طرف نسبت کر کے طلاق دیتا تو بھی واقع نہیں ہوتی، کیونکہ اگر کوئی شخص صحیح نکاح کو فاسد سمجھ کر توڑ دے،
[1] الدر المختار (۳/ ۲۴۸) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۹۵۵) [3] موطأ الإمام مالک (۲/ ۵۵۰) مشکاۃ المصابیح (۲/ ۲۴۷)