کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 51
میں مفسدوں نے فساد ڈال دیا تھا؟ بر تقدیرِ ثانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اطلاق باغیہ کا کرنا اس وقت میں صحیح تھا یا صحیح نہیں تھا اور سلف کا اس میں کیا عقیدہ ہے؟ جواب: یہ جو کتبِ عقاید میں مندرج ہے کہ افضل اس امت کے بعد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہ ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ ، پھر علی رضی اللہ عنہ یہ امر شرعی ہے اور دلیل اس پر حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما ہے: "قال کنا نخیر بین الناس في زمان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فنخیر أبا بکر رضی اللّٰه عنہ ثم عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ ثم عثمان بن عفان"[1] رواہ البخاري [ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ میں بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے، ہم کہتے تھے ابوبکر سب سے افضل ہیں ، ان کے بعد عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم ] اور یہ حدیث حکماً مرفوع ہے، جیسا کہ علمِ اصول سے معمولی تعلق رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ہے۔ طبرانی[2] کی روایت میں ہے: "فیسمع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ولا ینکرہ"[3]یہاں سے صراحتاً تقریرِ نبوی سمجھی جاتی ہے۔ جواب: قائل مقولہ مذکورہ کا عقیدہ جمہور سلف و علماے محدثین کے مخالف ہے۔ جواب: جنگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بجہتِ طلب قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے تھی، مفسدوں نے درمیان میں فساد ڈال دیا تھا، اس لیے باغیہ کا اطلاق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر صحیح نہیں ہے، سلف کا اس بارے میں یہی عقیدہ ہے۔ والتفصیل إلی کتب العقائد۔ و اللّٰه أعلم۔کتبہ: محمد بشیر ۱۲۹۴ عفی عنہ۔ الجواب صحیح: کتبہ محمد بن عبد العزیز القاضی فی بھوپال۔ شیخ محمد عفی عنہ۔ جواب: فی الواقع افضل اس امت کے بعد حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور یہ امر شرعی ہے اور اس پر ایک دلیل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے: "إن النبيّ صعد أحدا و أبوبکر و عمر، و عثمان رضی اللّٰه عنہم فرجف بھم، فقال: اثبت أحد! فإنما علیک نبي وصدیق وشھیدان"[4] (رواہ البخاري)
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۴۵۵) [2] "مجمع الزوائد‘‘ (۹/ ۴۹) میں لکھا ہے: "رواہ الطبراني في الکبیر والأوسط بنحوہ باختصار إلا أنہ قال: أبو بکر و عمر و عثمان رضى اللّٰه عنهم ثم استقر الناس فبلغ رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فلا ینکرہ علینا، وأبو یعلی بنحوہ الطبراني في الکبیر، ورجالہ وثقوا، وفیہم خلاف" انتھی۔ ’’طبرانی نے اوسط اور کبیر میں اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں افضلیت میں حضرت ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کا نام لیا کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا علم تھا، لیکن آپ نے منع نہیں کیا۔ ابو یعلی نے بھی اسے بیان کیا ہے اور اس کے رجال کی توثیق کی گئی ہے اور ان میں اختلاف بھی ہے۔‘‘ (ابو سعید محمد شرف الدین ۔عفي عنہ) [3] المعجم الکبیر (۱۲/ ۲۸۵) [4] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۴۷۲)