کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 509
نے ان الفاظ کے بولنے سے طلاق دینا ہی مراد لیا ہے؟ تو ان دونوں صورتوں میں عورت مذکورہ پر طلاق پڑ گئی۔ پھر اگر عورت مذکورہ اپنے شوہر مذکور کی مدخولہ نہیں ہوچکی ہے یا ہوچکی ہے، مگر عدت طلاق مذکور کی گزر چکی ہے تو ان دونوں صورتوں میں عورت مذکورہ اور اس کے شوہر کے بھائی میں نکاح ہوسکتا ہے اور اگر عدت نہیں گزر چکی ہے تو بعد عدت گزر جانے کے نکاح ہوسکتا ہے، مگر ان سب صورتوں میں یہ شرط ہے کہ عورت مذکورہ اور اس کے شوہر کا بھائی دونوں بدکاری سے سچی توبہ کر لیں ۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۴؍ جمادی الأولی ۱۳۳۱ھ) طلاق میں نسبت کرنا اور کسی کو مخاطب کرنا ضروری ہے: سوال: زید نے مسماۃ زینب زوجہ اپنی کو کہ وہ ایک گٹھری میں کپڑے اور زیور وغیرہ باندھ کر اپنے میکے جانے پر مستعد تھی روکا اور منع کیا کہ جاتی ہو تو گٹھری کیوں لیے جاتی ہو اور گٹھری چھین لی، مگر وہ ضد کیے جاتی تھی کہ میں جاؤں گی، گٹھری میری دے دو تو زید نے وہ گٹھری اپنی خالہ پر پھینک کر کہا: طلاق طلاق طلاق۔ تب اس کی خالہ نے کہا کہ تونے یہ کیا کہا؟ تو جواب دیا کہ میں نے تو کچھ نہ کہا اور اس وقت زوجہ اس کی میکے نہیں گئی اور وقت شام چند شخص اس کے باپ نے بھیجے کہ وہ بجبر تمام اسے میکے لے گئے اور گٹھری چھوڑ گئی۔ جواب: صورت مسؤلہ میں اگر زید کی زبان سے اس سے زیادہ کوئی لفظ نہیں نکلا تو طلاق نہیں ہے۔ اس لیے کہ طلاق کی نسبت کسی کی طرف نہیں کی اور نہ کسی کو مخاطب کیا۔ و اللّٰه أعلم وعلمہ أتم۔ حررہ: محمد إسماعیل، عفا اللّٰه عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ سوال: کسی شخص کی زن و شو میں با خود ہا کچھ تکرار ہوئی، اس پر عورت کے طلب کرنے سے مرد نے مہر دے دیا تو کسی شخص نے پوچھا کہ کیا مہر دے دینے سے طلاق ہوجاتی ہے؟ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ ہاں ہوگئی۔ وہاں پر تین شخص اور بھی موجود تھے۔ پہلا شخص (عورت کا چچا) بیان کرتا ہے کہ میں نے چار بار یہی سنا کہ مہر دے دیا تو طلاق ہوگئی۔ دوسرا شخص کہتا ہے: مجھے یاد نہیں کہ دو بار کہا یا تین بار، مگر پوچھنے پر یہی کہا کہ مہر دے دیا تو طلاق ہوگئی۔ تیسرے شخص کا بیان ہے کہ اس نے دوبار یہی کہا، مگر عورت سے مخاطب ہو کر ایک بار بھی نہیں ۔ تو شرع شریف کی رو سے طلاق واقع ہوئی کہ نہیں ؟ جواب: شارع نے ہر امر کے لیے قانون مقرر کر دیے ہیں ، جن سے کاموں کا جواز و عدمِ جواز سمجھا جاتا ہے، چنانچہ اسی بنا پر طلاق کی صحت و جواز کے واسطے محاورے کے اعتبار سے دو طرح کے الفاظ ٹھہرائے گئے: 1۔ صریح، جو طلاق ہی میں مستعمل ہوتے ہیں اور ان کے استعمال سے بلا نیت طلاق ہی سمجھی جاتی ہے۔ 2۔ کنایہ، جن میں طلاق کے سوا اور باتوں کا بھی احتمال رہتا ہے اور ان کے استعمال سے بلا نیت طلاق معتبر نہیں ہوتی۔ ہدایہ (۱/ ۳۳۹ مصطفائی) میں ہے: