کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 504
﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً﴾ [سورۂ نساء، رکوع: ۴] [پھر وہ جن سے تم ان عورتوں میں سے فائدہ اٹھاؤ، پس انھیں ان کے مہر دو، جو مقرر شدہ ہوں ] ﴿یٰٓاََیُّھَا النَّبِیُّ اِِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ﴾ [سورۂ طلاق رکوع: ۱] [اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنو] عن عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہما أنہ طلق امرأتہ، وھي حائض، علی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فسأل عمر بن الخطاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم عن ذلک، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( مرہ فلیراجعھا، ثم یمسکھا، حتی تطھر، ثم تحیض، ثم تطھر، ثم إن شاء أمسک بعد، وإن شاء طلق قبل أن یمس، فتلک العدۃ التي أمر اللّٰه أن یطلق لھا النساء )) [1] (صحیح بخاري: ۳/ ۲۲۳، مطبوعہ مصر) [عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی، جب کہ وہ ایامِ حیض میں تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اس کو اپنے ہاں رکھے، حتی کہ وہ پاک ہو، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر چاہے تو اسے بیوی بنائے رکھے یا چاہے تو طلاق دے دے، مگر مباشرت سے پہلے اور یہی وہ عدت ہے جس کے موقع پر الله تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ) سوال: ایک شخص نے اولاً ایک طلاق دیا، پھر اس طلاق سے رجعت نہیں کیا، پھر عدت کے اندر ہی دوسرا طلاق دے دیا، اب رجعت کر سکتا ہے یا نہیں ؟ رجعت کے لیے عورت و مرد کا ساتھ ضروری ہے یا نہیں ؟ زبانی یا تحریری رجعت ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ جواب: اس صورت میں جب تک اول طلاق کی عدت نہ گزرے، مرد رجعت کر سکتا ہے۔ زبانی اور تحریری رجعت ہوسکتی ہے۔ رجعت کے لیے عورت و مرد کا ساتھ ضرور نہیں ۔ عدت گزر جانے پر رجعت نہیں ہوسکتی۔ طلاق رجعی عدت گزر جانے پر بائن ہوجاتی ہے۔ طلاق کی عدت اگر عورت کو حیض آتا ہو تو تین حیض ہے اور حمل ہو تو وضع حمل، ورنہ تین مہینے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ) سوال:1۔ ایک شخص مسمی عمرو نے اپنی زوجہ مسماۃ رفیعہ سے کہا کہ میں نے تجھ کو طلاق دیا۔ ایک جلسہ میں دو دفعہ کہا اور اس کا اعلان نہیں کیا۔ بعد ازاں دو تین ہفتہ تک ان دونوں میں ملاقات نہیں ہوئی، اس کے بعد آپس میں پھر اختلاف ہوگیا اور عمرو کے والدین نے رفیعہ کو میکہ پہنچا دیا۔ رفیعہ کے میکے جانے کے چار پانچ مہینے کے بعد اس کو ایک لڑکی پیدا ہوئی اور بعد ازاں انتقال کر گئی۔ رفیعہ کے میکہ رہنے کی حالت میں عمرو نے ما قبل وما بعد پیدا ہونے لڑکی کے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۹۵۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۴۷۱)