کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 482
جو بلا اجازت ولی کے ہو باطل اور ناجائز ہے۔ صحیح بخاری (۳/ ۱۵۴ مصری) میں ہے: ’’باب من قال: لا نکاح إلا بولي، لقول اللّٰه تعالیٰ:﴿فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ﴾ فدخل فیہ الثیب، وکذلک البکر، وقال:﴿وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا﴾ وقال﴿وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ﴾۔۔۔ أن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أخبرتہ أن النکاح في الجاھلیۃ کان علی أربعۃ أنحاء فنکاح منھا نکاح الناس الیوم، یخطب الرجل إلی الرجل ولیتہ أو ابنتہ فیصدقھا فینکحھا۔۔۔ فلما بعث محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم بالحق ھدم نکاح الجاھلیۃ کلہ إلا نکاح الناس الیوم۔۔۔ إلی آخر الباب‘‘[1]و اللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب [جس نے کہا کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا، کیونکہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’پس تم ان کو مت روکو۔‘‘ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب شامل ہیں ۔ الله تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’اور (اپنی عورتیں ) مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ۔‘‘ نیز اس کا فرمان ہے: ’’اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کر دو‘‘ ۔۔۔ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی، بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خبر دی کہ زمانۂ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح ہوتے تھے۔ ایک صورت تو یہی تھی، جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیرِ پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کی طرف پیش قدمی کر کے اس سے نکاح کرتا۔۔۔ پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول بن کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح باطل قرار دیے۔ صرف اس نکاح کو باقی رکھا، جس کا آج کل رواج ہے ۔۔۔] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۲؍ ذی القعدۃ ۱۳۳۹ھ) ولی کے بغیر اور خفیہ نکاح کا حکم: سوال: ایک شخص کی ایک بیوہ لڑکی بالغہ اور ذی جمال ہے، جس کی نسبت دو تین جگہوں سے آتی رہی اور اس کے والد بھی حسبِ خواہ اپنے نکاح کرانے کا ارادہ رکھتے تھے، ناگاہ اس نسبتی کا ایک شخص اس پر عاشق ہوگیا اور کٹنیوں [نائکہ] کے ذریعے سے بلوا کر اس سے نکاح کرنے کے لیے اپنی بی بی کو بلا قصور طلاق دے دیا، بعدہ خفیہ طور پر نکلوا کر غیر بستی کے دو شخصوں کے سامنے نکاح کیا، یہاں تک کہ اس بستی کے کسی شخص کو نہ اس کے ولی کو اس کی خبر ہے اور اس کے ولی لوگ بیزار و ناراض ہیں ۔ ایسی حالت میں ایسا نکاح صحیح ہوا یا نہیں ؟ المستفتی: محمد نزول الحق آرہ۔ خیراتی مسجد جواب: مذکورہ بالا نکاح دو وجہوں سے صحیح نہیں ہے: 1۔ خفیہ طور پر کیا گیا، حالانکہ اس کی ممانعت ہے اور نکاح میں اعلان کا حکم ہے۔ لقولہ تعالیٰ: ﴿وَ لَا مُتَّخِذِیْٓ
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۸۳۴)