کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 480
قصبہ شکوہ آباد۔ ضلع حسین پور (یاجن پور) بازار کٹرا اندرون پھاٹک بر مکان میان محمد حسین جنرل مرچنٹ ابو الحسن کو ملے۔ جواب: کوئی عورت بغیر اذن اپنے ولی کے اپنا نکاح نہیں کر سکتی۔ صحیح بخاری (۳/ ۱۵۴ طبع مصر) میں ہے: ’’باب من قال: لا نکاح إلا بولي، لقول اللّٰه تعالیٰ:﴿فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ﴾ فدخل فیہ الثیب، وکذلک البکر، وقال:﴿وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا﴾ وقال:﴿وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ﴾ (إلی قولہ) أن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أخبرتہ أن النکاح في الجاھلیۃ کان علیٰ أربعۃ أنحائٍ فنکاح منھا نکاح الناس الیوم، یخطب الرجل إلی الرجل ولیتہ أو ابنتہ فیصدقھا ثم ینکحھا (إلی قولھا) فلما بعث محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم بالحق ھدم نکاح الجاھلیۃ کلہ إلا نکاح الناس الیوم (إلی آخر الباب)‘‘ [1] [جس نے کہا کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا، کیونکہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’پس تم ان کو مت روکو۔ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب شامل ہیں ۔ الله تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’اور (اپنی عورتیں ) مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ۔‘‘ نیز اس کا فرمان ہے: ’’اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کر دو‘‘ ۔۔۔ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی، بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خبر دی کہ زمانۂ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح ہوتے تھے: ایک صورت تو یہی تھی، جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیرِ پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کی طرف پیش قدمی کر کے اس سے نکاح کرتا۔۔۔ پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول بن کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح باطل قرار دیے۔ صرف اس نکاح کو باقی رکھا، جس کا آج کل رواج ہے ۔۔۔] حدیث: (( أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل )) [2] اور حدیث: (( الأیم أحق بنفسھا من ولیھا )) [3] میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ جمع کی ضرورت ہو، اس لیے کہ حدیث اول و نیز آیات و دیگر احادیثِ مذکورہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی عورت بغیر اذن اپنے ولی کے اپنا نکاح نہیں کر سکتی اور حدیثِ ثانی سے اس کا خلاف ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی عورت اپنا نکاح بغیر اذن اپنے ولی کے بھی کر سکتی ہے، بلکہ حدیثِ ثانی میں صرف اس قدر مذکور ہے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۸۳۴) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۰۸۳) [3] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۴۲۱)