کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 473
رضا ہوگا، جیسا کہ عند الاستیذان سکوت رضا پر محمول ہے، پس اگر زید وکیل پدر ہندہ قرار پاتا ہے تو اس نکاح پڑھا دینے میں سکوت رضا پر محمول ہوگا یا نہیں اور اگر بالفرض زید وکیل نہیں ، بلکہ فضولی قرار دیا جائے تو بغیر تصریح اذن ہندہ کے یہ نکاح نافذ ہوگا یا نہیں ؟ 2۔ انعقادِ نکاح کے وقت نام زد کرنا دو گواہوں کا جیسا کہ فی زمانہ رائج ہے، یہی ضروری ہے یا صرف موجود رہنا کافی ہے؟ 3۔ بعد نکاح منکوحہ کے پاس روبرو شخص خاص کو جا کر نکاح کی اطلاع بھی دینا ضروری ہے یا کسی طرح اطلاع ہوجانا کافی ہے؟ 4۔ استیذان غیر ولی میں تکلم بلسان شرط ہے، جیسا کہ ہدایہ میں ہے: ’’وإذا استأذنھا الولي فسکتت أو ضحکت فھو إذن، وإن فعل ھذا غیر الولي لم یکن رضا حتی تتکلم بہ‘‘ [جب ولی اس (لڑکی) سے (نکاح کی) اجازت طلب کرے تو وہ خاموش رہے یا ہنسنے لگے تو یہ اجازت شمار ہوگی اور اگر غیر ولی یہ کام کرے تو جب تک وہ بول کر اجازت نہ دے تو یہ (اس کی خاموشی وغیرہ) اس کی رضا شمار نہیں ہوگی] اور مانحن فیہ میں یہ نکاح بوجہ ترکِ استیذان ہندہ کے اجازت پر موقوف ہے، جیسا کہ ہدایہ میں ہے: ’’وتزویج العبد والأمۃ بغیر إذن مولاھما فھو موقوف، فإن أجازہ المولی جاز، وإن ردہ بطل، وکذلک لو زوج رجل امرأۃ بغیر رضاھا أو رجلا بغیر رضاہ‘‘ [غلام اور لونڈی کے آقا کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح موقوف ہوگا۔ اگر ان کا آقا نکاح کی اجازت دے دے تو جائز ہے اور اگر وہ اس کو رد کر دے تو نکاح باطل ہوگا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا، جب کوئی آدمی عورت کی رضا کے بغیر یا مرد کی رضا کے بغیر ان کا نکاح کر دے] پس استیذان اور اجازت شرعاً دو شے ہے یا شے واحد؟ اگر دو شے ہے تو جس طرح استیذان غیر ولی میں تکلم باللسان شرط ہے، اسی طرح تکلم باللسان اجازت میں بھی شرط ہے یا نہ اور ہر واحد کے بقول مفتیٰ بہ اجمالاً یا جداگانہ کیا تعریف ہے؟ 5۔ مجرد سکوت دلیل اجازت ہے یا نہ؟ اور اگر بالفرض مجرد سکوت دلیل اجازت نہیں ہے تو خلوتِ صحیحہ دلیل اجازت ہوگی یا نہ؟ جواب: اس صورت میں نکاح صحیح و نافذ ہو جائے گا، تجدیدِ نکاح و صریح اقرار ہندہ کی ضرورت نہیں ہے۔ لما سیأتي۔ 1۔ اس صورت میں کہ پدر ہندہ نے بکر کو یہ لکھا اور احمد کی زبانی بھی کہلا بھیجا کہ زید وہاں موجود ہے، بعوض ایک ہزار روپیہ کے نکاح کر دے، زید وکیل منجانب پدر ہندہ قرار پائے گا اور اس کا نکاح کیا ہوا پدر ہندہ کا نکاح کیا ہوا سمجھا جائے گا، اس لیے کہ وکیل کا فعل عین موکل کا فعل تصور کیا جاتا ہے اور جب بکر بالغہ کا نکاح اس کا ولی کر دے اور اس نکاح کی خبر اس کو کوئی ایک ہی فضولی کر دے، جو عدل ہو یا دو مستور فضولی کر دیں اور وہ اس خبر کو سن کر سکوت کرے تو ایسا سکوت دلیلِ رضا ہوتا ہے، بس اسی طرح جب وکیل نکاح کر دے اور باقی حالت بدستور ہو تو سکوت