کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 465
خود اپنا نکاح کرے۔ بدکار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے]
ہدایہ کے ’’باب الأولیاء والأکفاء‘‘ میں ہے: ’’ویجوز نکاح الصغیر والصغیرۃ إذا زوجھما الولي۔۔۔ الخ‘‘[1] [صغیر اور صغیرہ کا نکاح جائز ہے، جب ان کے ولی ان کا نکاح کریں ۔۔۔ الخ] در مختار کے ’’باب الولي‘‘ میں ہے: ’’وھو أي الولي شرط صحۃ نکاح صغیر‘‘[2] [اور وہ یعنی ولی (کی اجازت)، صغیر کے نکاح کے صحیح ہونے کی شرط ہے] اور ’’رد المحتار‘‘ میں ہے:
’’(قولہ: صغیر الخ) الموصوف محذوف أي شخص صغیر الخ فیشمل الذکر والأنثی۔۔۔ الخ‘‘[3]و اللّٰه أعلم بالصواب
[اس کا قول: ’’صغیر‘‘ یہاں پر موصوف محذوف ہے، یعنی: ’’شخص صغیر ‘‘ لہٰذا یہ مذکر و مونث دونوں کو شامل ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)
سوال: لڑکی کنواری بالغہ کا ولی بوجہ ناخوشی اپنی اجازت عقد کی اس لڑکی کے نہیں دیتا، ایسی حالت میں لڑکی کا عقد اپنی اجازت سے ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: عورت کا نکاح بغیر اذن ولی کے نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر اپنا نکاح بغیر اذن ولی کے کر لے تو وہ نکاح باطل ہے۔
عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل )) [4] الحدیث (مشکوۃ شریف، ص: ۲۶۲)
[سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے]
ہاں اگر ولی اقرب نکاح سے روکے تو اس وقت ولایت سے وہ معزول ہوجاتا ہے اور ولی ابعد اس کا قائم مقام ہوجاتا ہے، یعنی ولی ابعد کا اذن صحتِ نکاح میں کافی ہوجاتا ہے۔
’’ویثبت للأبعد التزویج بعضل الأقرب أي بامتناعہ عن التزویج إجماعا‘‘[5](در مختار)
[اس پر اجماع ہے کہ جب ولیِ اقرب نکاح سے روکے تو ولیِ ابعد کو نکاح کروانے کا حق حاصل ہوجاتا ہے] و اللّٰه أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
[1] الھدایۃ (۱/ ۱۹۸)
[2] رد المحتار مع الدر المختار (۳/ ۵۵)
[3] المصدر السابق۔
[4] مسند أحمد (۶/ ۴۷) سنن الدارمي (۲/ ۱۸۵) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۰۸۳) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۱۰۲) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۸۷۹)
[5] الدر المختار مع رد المحتار (۳/ ۸۲)