کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 463
سے صحیح نہیں ہوا۔ پس سوال یہ ہے کہ از روئے قرآن و حدیث کے ایسی صورت میں ہندہ کی گلو خلاصی کی کیا صورت ہے؟
جواب: ایسی صورت میں ہندہ حاکم سے درخواست کرے کہ میں فلاں شخص سے اپنا نکاح کرنا چاہتی ہوں ، حاکم میرے بھائی کو حکم دے کہ وہ میرا نکاح اس شخص سے کر دے اور اگر میرا بھائی میرا نکاح کر دینا اس شخص سے منظور نہ کرے تو (بشرطیکہ ہندہ کا اور کوئی ولی نہ ہو) ایسی حالت میں حاکم خود ولی ہے، اپنی ولایت سے میرا نکاح اس شخص سے کر دے یا اپنی طرف سے کسی شخص کو حکم دے دے کہ وہ شخص میرا نکاح اس شخص سے کر دے۔ نیل الاوطار (۶/ ۲۶) میں ہے:
’’فإذا لم یکن ثم ولي أو کان موجودا و عضل، انتقل الأمر إلیٰ السلطان، لأنہ ولي من لا ولي لہ‘‘
[پس جب ولی نہ ہو یا ولی تو ہو، لیکن وہ اس کو نکاح سے روکے تو امرِ ولایت سلطان کی طرف منتقل ہوجائے گا، کیونکہ ولی نہ ہونے کی صورت میں وہ ولی ہے]
ایضاً (۶/ ۳۳) میں ہے:
’’وفي حدیث معقل ھذا دلیل علی أن السلطان لا یزوج المرأۃ إلا بعد أن یأمر ولیھا بالرجوع عن العضل، فإن أجاب فذاک وإن أصر زوّجھا‘‘
[معقل بن یسار کی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ سلطان کسی عورت کا نکاح کرانے سے پہلے اس کے ولی کو حکم دے کہ وہ نکاح سے روکنے والا عمل ترک کر دے، اگر وہ بجاآوری کرے تو ٹھیک اور اگر وہ اپنی ضد پر مصر رہے تو سلطان اس کا نکاح کر دے] و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۶؍ ذو القعدہ ۱۳۲۹ھ)
سوال: اگر دادا اپنی پوتی نابالغہ کا عقد اپنے لڑکے کے ہوتے ہوئے کسی سے کر دے اور بعد بلوغ کسی وجہ سے پوتی نے نکاح مذکورہ کو فسخ کر دیا اور شوہر کے گھر جانے سے منکر ہوئی تو نکاح مذکور فسخ ہوا یا نہیں ؟
جواب: نکاح مذکور اگر بلا اجازت لڑکی کے باپ کے ہوا ہے تو یہ نکاح درست ہی نہیں ہوا اور جب نکاح مذکور درست ہی نہیں ہوا تو اس نکاح کے فسخ کی بھی حاجت نہیں ، اس لیے کہ باپ کی موجودگی میں دادا ولی نہیں ہو سکتا اور جب دادا ولی نہیں ہو سکتا تو یہ نکاح بلا اجازت ولی کے ہوا اور نکاح جو بلا اجازت ولی کے ہو باطل اور نادرست ہے۔ صحیح بخاری (۳/ ۱۵۳ طبع مصری) میں ہے:
’’عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن النکاح في الجاھلیۃ کان علیٰ أربعۃ أنحاء، فنکاح منھا نکاح الناس الیوم، یخطب الرجل إلیٰ الرجل ولیتہ أو ابنتہ فیصدقھا، ثم ینکحھا۔۔۔ فلما بعث محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم بالحق ھدم نکاح الجاھلیۃ کلہ إلا نکاح الناس الیوم۔۔۔ إلیٰ آخر الباب‘‘[1]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۸۳۴)