کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 462
جواب نمبر 2و 3 و4 ۔ یہ نکاح ناجائز ہے، اس کے فسخ کی ضرورت نہیں ، صرف علاتی دادا کو بعد بلوغ جمیلۃ النساء کے جمیلۃ النساء کی منظوری سے اس کے عقد کا اختیار حاصل ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ اعلم 5۔ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ نکاح بعد بلوغ ہونا چاہیے، اذن لے کر، نہ حالت نابالغی میں ۔[1] صحیح حدیث یہ ہے: (( لا تنکح الأیم حتی تستأمر، ولا تنکح البکر حتی تستأذن )) [2] ’’نہ نکاح کیا جائے بیوہ کا یہاں تک کہ اس سے حکم لیا جائے اور نہ نکاح کیا جائے باکرہ کا یہاں تک کہ اس سے اِذن لیا جائے۔‘‘ 6۔ اس صورت میں حقِ پرورش کے لیے خالہ کو ترجیح ہے، اگر خالہ شوہردار نہ ہو یا ہو تو اس کا شوہر پرورش پر راضی ہو۔ صحیح حدیث میں ہے: (( الخالۃ بمنزلۃ الأم )) [3]یعنی خالہ بمنزلہ ماں کے ہے۔ (مشکوۃ شریف، ص: ۲۸۵) و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۵؍ ربیع الاول ۱۳۳۱ھ) سوال: ایک بیوہ عورت ہندہ ہے اور بالغہ ہے، اس کا باپ مر گیا ہے، اس کے لیے بھائی اور ماموں موجود ہیں ۔ مسماۃ ہندہ اور اس کی ماں حنفی المذہب ہیں ۔ ایک شخص اہلِ حدیث نے ہندہ سے نکاح کرنے کا پیغام اس کے بھائی کے یہاں بھیجا۔ مسماۃ ہندہ کو اس شخص اہلِ حدیث سے نکاح کرنا منظور ہوا اور ہر طرح راضی ہوئی، کیونکہ وہ شخص اہلِ حدیث بہت لائق اور صالح و دیندار ہے اور ہندہ کی ماں کو بھی اس شخص سے نکاح کر دینا منظور و پسند ہوا، مگر ہندہ کے بھائی نے منظور نہیں کیا۔ اس درمیان میں ہندہ کو خبر لگی کہ اس کا بھائی اس کا نکاح ایک دوسرے شخص سے کرے گا، جو بے نمازی ہے، چونکہ ہندہ کو اس دوسرے شخص سے نکاح کرنا کسی طرح منظور نہ تھا، اس وجہ سے بہت گھبرائی کہ میرا نکاح کہیں اس دوسرے شخص سے نہ کر دیا جائے اور بعجلت تمام بلا اجازت و بلا اطلاع اپنے بھائی کے اس اہلِ حدیث شخص سے اپنا نکاح کر لیا اور اس اہلِ حدیث نے بھی اس خیال سے کہ نکاح ہوجانے کے بعد اس کا بھائی اجازت دے دے گا، نکاح کر لیا۔ جب نکاح کی خبر ہندہ کے بھائی کو لگی تو وہ ہندہ سے بہت ناخوش ہوا اور اب وہ کسی طرح سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ جو چاہے کرے، ہم کبھی اجازت نہ دیں گے اور نہ کسی طرح اس کی اجازت دینے کی امید معلوم ہوئی۔ اب ہندہ سخت مصیبت میں پڑ گئی کہ نہ اس کا بھائی نکاح کی اجازت دیتا ہے اور نہ وہ اہلِ حدیث اس کو اپنی منکوحہ سمجھ کر رکھ سکتا ہے اور نہ اس سے معاملہ زن و شو کا کر سکتا ہے، کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ یہ نکاح حدیث کی رو
[1] یعنی عموماً ایسا ہو، وگرنہ حالتِ نابالغی میں بھی نکاح درست ہے اور اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حالتِ نابالغی میں ہوا تھا۔ [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۸۴۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۴۱۹) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵۵۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۸۳)