کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 460
کا عام دستور تھا کہ جب اپنی قرابت کی کسی عورت کے نکاح کا پورا سامان کر چکتیں اور صرف نکاح کر دینا باقی رہ جاتا تو اس عورت کے ولی سے فرما دیتیں کہ تو اس کا نکاح کر دے، کیونکہ عورت ولایت نکاح کی نہیں رکھتی، چنانچہ بیہقی نے کتاب ’’المعرفۃ‘‘ میں اس بات کو بصراحت بیان کر دیا ہے اور شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تخریجِ ہدایہ میں اس کو نقل فرما دیا ہے۔ تخریجِ ہدایہ کی عبارت یہ ہے: ’’وأجاب البیھقي عن ذلک بأن قولہ في ھذا الأثر: زوجت أي مھدت أسباب التزویج لا أنھا ولیت عقدۃ النکاح، واستدل لتأویل ھذا بما أسندہ عن عبد الرحمن بن القاسم قال: کانت عائشۃ تخطب إلیھا المرأۃ من أھلھا فتشھد فإذا بقیت عقدۃ النکاح قالت لبعض أھلھا: زوج، فإن المرأۃ لا تلي عقدۃ النکاح‘‘[1] [امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس اثر میں جو ’’زَوَّجَتْ‘‘ کا لفظ مذکور ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں (عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے اسبابِ نکاح مہیا کر دیے نہ کہ انھوں نے عقدِ نکاح کی ولایت اختیار کی۔ چنانچہ انھوں نے اس تاویل کی دلیل اس روایت کو بنایا ہے، جو انھوں نے عبد الرحمن بن القاسم سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھرانے میں سے کوئی عورت ان کو نکاح کرنے کا کہتیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے نکاح کی پوری تیاری کر دیتیں اور جب صرف نکاح کر دینا باقی رہ جاتا تو اس عورت کے ولی سے کہتیں کہ اس کا نکاح کر دے، کیونکہ عورت ولایتِ نکاح کا حق نہیں رکھتی] نیز نیل الاوطار میں سے اوپر منقول ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مذہب یہ ہے کہ نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہے، بلکہ صحابہ میں کسی سے اس کا اختلاف صحیح نہیں اور عورت بابِ نکاح میں ولی نہیں ہے تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی ولایت سے کسی کا نکاح کر دیں ، یہ نہایت بعید ہے۔ علاوہ اس کے جب خود حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو چکا کہ نکاح بولایتِ عورت جائز نہیں ہے تو بمقابلہ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مل جائے تو اس کے مقابلے میں کسی کی بات نہ مانو اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صاف فرما دیا کہ جب تک کسی کو ہمارے قول کی سند معلوم نہ ہو، ہمارے قول پر فتویٰ دینا اس کو حلال نہیں ہے۔ (دیکھو: حجۃ اللّٰه البالغۃ، چھاپہ صدیقی بریلی، ص: ۱۶۲۔ ۱۲۳ وغیرہ) 4۔ یتیمہ نابالغہ کا نکاح قبل بلوغ حضرت سفیان ثوری اور امام شافعی و دیگر اہل علم رحمہم اللہ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ ترمذی شریف (۱/ ۱۴۱ چھاپہ مطبع احمدی میرٹھ) میں لکھا ہے: ’’واختلف أھل العلم في تزویج الیتیمۃ، فرأی بعض أھل العلم أن الیتیمۃ إذا زوجت، فالنکاح موقوف حتی تبلغ، فإذا بلغت فلھا الخیار في إجازۃ النکاح وفسخہ، وھو قول بعض التابعین وغیرھم، وقال بعضھم: لا یجوز نکاح الیتیمۃ
[1] الدرایۃ لابن حجر (۲/ ۶۰) نیز دیکھیں : معرفۃ السنن والآثار للبیھقي (۱۰/ ۳۳)