کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 459
1۔ یہ دونوں نکاح بولایتِ عورت ہوئے ہیں اور نکاح بولایتِ عورت جائز نہیں ہے، کیونکہ عورت کو نکاح میں ولایت حاصل نہیں ہے۔ مشکوۃ شریف (ص: ۲۶۳ چھاپہ مطبع احمدیہ دہلی) میں مرقوم ہے: عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( لا تزوج المرأۃ المرأۃ، ولا تزوج المرأۃ نفسھا۔۔۔ )) [1] الحدیث (رواہ ابن ماجہ) [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت کسی عورت کا نکاح کرے نہ عورت خود اپنا نکاح کرے۔۔۔ الحدیث] 2۔ ولی بابِ نکاح میں صرف عصبہ ہے۔ ہدایہ (ص: ۲۰۴ چھاپہ علوی) میں مرقوم ہے: ’’والولي ھو العصبۃ‘‘ یعنی ولایت بابِ نکاح میں صرف عصبہ کو حاصل ہے اور اس کے ثبوت میں ہدایہ جلد مذکور (ص: ۲۰۵) میں یہ حدیث مرقوم ہے: (( النکاح إلیٰ العصبات )) [2]یعنی نکاح کی ولایت صرف عصبات کو ہے۔ یہ حدیث حنفی مذہب میں تسلیم کر لی گئی ہے اور ماں عصبات میں سے نہیں ہے تو اس کو ولایت بابِ نکاح میں حاصل نہیں ہے۔ 3۔ نکاح بغیر ولی کے باجماعِ صحابہ باطل ہے۔ نیل الاوطار (۶/ ۲۶ چھاپہ مصر) میں مرقوم ہے: ’’وقد ذھب إلیٰ ھذا علي و عمر و ابن عباس وابن عمر و ابن مسعود و أبو ھریرۃ و عائشۃ والحسن البصري وابن المسیب وابن شبرمۃ وابن أبي لیلیٰ والعترۃ و أحمد و إسحاق والشافعي و جمھور أھل العلم فقالوا: لا یصح العقد بدون ولي۔ قال ابن المنذر: إنہ لا یعرف عن أحد من الصحابۃ خلاف ذلک‘‘ [علی، عمر، ابن عباس، ابن مسعود، ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم ، حسن بصری، ابن المسیب، ابن شبرمہ، ابن ابی لیلی، عترہ، احمد، اسحاق، شافعی اور جمہور اہلِ علم رحمہم اللہ اس طرف گئے ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ ولی (کی اجازت) کے بغیر عقدِ (نکاح) صحیح نہیں ہوتا۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے کہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے بھی اس کے خلاف کوئی شے معلوم نہیں ہے] بعض لوگ جو نکاح بولایتِ عورت کے جواز پر اس سے استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بھتیجی کا نکاح اپنے بھانجے سے کر دیا تھا، یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں جو ’’زَوَّجَتْ‘‘ کا لفظ مذکور ہے، اس سے نکاح کر دینا مراد نہیں ہے، بلکہ اسبابِ نکاح کا مہیا کر دینا مراد ہے۔ دلیل اس پر یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۸۸۲) [2] حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث نہیں ملی۔ (الدرایۃ: ۲/ ۶۲)