کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 454
متکلمین اور فقہا اس موقف پر ہیں کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔۔۔ الخ] مسند امام اعظم للحصفکی مع شرح ملا علی قاری (ص: ۱۹۵ و ۱۹۶) میں ہے: ’’وبہ أي بسند أبي حنیفۃ عن عبد الکریم بن أبي المخارق عن طاؤس قال: جاء رجل إلی ابن عمر فسألہ فقال: یا أبا عبد الرحمن أرأیت الذین یکسرون أغلاقنا أي أقفالنا ویفتحون أبوابنا وینقبون بیوتنا ویغیرون علی أمتعتنا أکفروا بہ قال: لا قال: أي الرجل السائل: أرأیت ھؤلاء الذین یتأولون علینا أي من الخوارج والبغاۃ ویسفکون دماء،نا أي یرقبونھا والمعنی یبیحون قتلنا بتأویلات فاسدۃ وآراء کاسدۃ أکفروا بہ، قال: لا أي لأنھم أخطأوا في اجتھادھم، ووقعوا في خلاف مرادھم فتوھموا أنا نستحق القتل لما صدر عنا من التقصیر في الدین علی زعمھم، والحاصل إنھم وغیرہم لم یکفروا حتی یجعلوا مع اللّٰه شیئاً أي شریکا وفي معناہ کل ما یوجب کفرا قال طاؤس: وأنا انظر إلی أصبع ابن عمر وھو یحرکھا إشارۃ إلی التوحید ومقام التفرید، ویقول سنۃ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أي ھذا شریعتہ وطریقتہ، وھذا الحدیث وإن کان بظاھرہ موقوفاً لکن رواہ جماعۃ آخرون فرفعوہ عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔[1] [اور اس کے ساتھ یعنی ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سند کے ساتھ عبدالکریم بن ابی المخارق سے مروی ہے، انھوں نے طاؤس سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا ہے: ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور سوال کرتے ہوئے کہا: اے ابو عبدالرحمن! آپ کا کیا خیال ہے جو ہمارے تالے توڑتے ہیں ، ہمارے دروازے کھولتے ہیں اور ہمارا سامان لوٹ لیتے ہیں ، کیا وہ اس کے ساتھ کافر ہو جاتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں ، پھر اس سائل نے یہ دریافت کیا: آپ کا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہمارے خلاف تاویلیں کرتے ہیں ، یعنی خارجی لوگ اور باغی گروہ اور ہمارے خون بہاتے ہیں ، یعنی وہ خون بہانے کے منتظر رہتے ہیں ، معنی یہ ہے کہ وہ فاسد تاویلوں اور کاسد آرا کے ساتھ ہمارے قتل کو جائز سمجھتے ہیں ، کیا وہ اس و جہ سے کافر ہو جائیں گے؟ انھوں نے کہا: نہیں ، کیونکہ انھوں نے اجتہادی غلطی کی ہے اور وہ اپنی مراد کے سلسلے میں اختلاف میں واقع ہو گئے ہیں ۔ چنانچہ وہ اس وہم کا شکار ہو گئے ہیں کہ ہم قتل کے مستحق ہو گئے ہیں ، کیونکہ ان کے گمان کے مطابق ہم سے دین کے معاملے میں کوتائی سرزد ہوئی ہے، مختصر یہ کہ انھوں نے اور دیگر لوگوں نے کفر نہیں کیا ہے، حتی کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک بنائیں یا اس جیسا کوئی کام کریں جو کفر کو واجب کرتا ہو۔ طاؤس رحمہ اللہ نے کہا: میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی انگلی کی طرف
[1] الدر المختار (۳/ ۶۳)