کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 452
الطالب علیٰ أرجح المطالب‘‘ (ص: ۴۷۰) طلب کر کے دیکھیے: ’’وقد ثبت في الفسخ لعدم النفقۃ ما أخرجہ الدارقطني والبیھقي من حدیث أبي ھریرۃ مرفوعاً، قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في الرجل لا یجد ما ینفق علی امرأتہ: (( یفرق بینھما )) [1] أخرجہ الشافعي و عبد الرزاق عن سعید بن المسیب، وقد سألہ سائل عن ذلک، فقال: یفرق بینھما، فقیل لہ: سنۃ؟ فقال: نعم، سنۃ‘‘ [عدمِ نفقہ کی وجہ سے نکاح کے فسخ کیے جانے کا ثبوت اس حدیث سے ملتا ہے، جسے امام دارقطنی اور بیہقی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے، کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے متعلق فرمایا، جس کے پاس اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے لیے مال نہیں ہے: ’’ان دونوں کے درمیان جدائی کر دی جائے۔‘‘ اس حدیث کو امام شافعی اور عبد الرزاق رحمہما اللہ نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے۔ کسی آدمی نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ سنت ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں یہ سنت ہے] بلوغ المرام (ص: ۱۳۷) میں بھی ہے مثل اس کے، ان کے علاوہ اور بھی اَدلہ ہیں ، جن کی تفصیل مخافتِ تطویل سے نہیں کی گئی۔ و اللّٰه المستعان۔ 2، 3۔ ایسی صورت میں ہندہ اپنے نفس کا فدیہ دے کر زوج سے خلع کرا لے اور بعد خلع کے ایک حیض عدت میں رہ کر جی چاہے تو دوسرا نکاح کر لے۔ الله سبحانہ فرماتا ہے: ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ﴾[سورۃ بقرۃ: رکوع: ۲۹] [پھر اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں الله کی حدیں قائم نہیں رکھیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں ، جو عورت اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں دے دے] و عن ابن عباس قال: جاء ت امرأۃ ثابت بن قیس بن شماس إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقالت: یا رسول اللّٰه ! إني ما أعتب علیہ في خلق ولا دین، ولکني أکرہ الکفر في الإسلام۔ فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( أتردین علیہ حدیقتہ؟ )) قالت: نعم، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( اقبل الحدیقۃ، وطلقھا تطلیقۃ )) [2] (رواہ البخاري) [عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس (اپنے خاوند) کے دین اور اخلاق (کی کسی
[1] مسند الشافعي (۱۲۷۳) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۹۷۱) سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۴۶۳)