کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 446
وہ ان کو طلاق دیں تو جتنی دیر انھوں نے ان کو روکا ہے، اس مدت کا بھی نفقہ دیں ] ﴿وَالِّٰی۔ٓئْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْھُرٍ وَّالِّٰی۔ٓئْ لَمْ یَحِضْنَ﴾ [سورۂ طلاق رکوع ۱] و اللّٰه أعلم بالصواب [اور وہ عورتیں جو تمھاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہیں ، اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ) صح الجواب، و اللّٰه أعلم بالصواب، کتبہ أبو الفیاض محمد عبدالقادر أعظم گڑھی مؤی۔ سوال: ایک عورت کا شوہر نکاح کے بعد کہیں چلا گیا، اب اس کو گئے ہوئے دسواں برس ہے اور جب سے گیا ہے، کچھ اس کا پتا نہیں ہے کہ کہاں ہے؟ مر گیا یا جیتا ہے؟ اس عورت نے بمشکل تمام اب تک اس کا انتظار کیا اور اب انتظار نہیں کر سکتی، اس صورت میں اس کا نکاح دوسرے کسی سے کر دینا درست ہے یا نہیں ؟ جواب: اس صورت میں اس عورت کا نکاح دوسرے شخص سے کر دینا درست ہے، لیکن اس عورت کو چاہیے کہ اولاً اس مقدمہ کو اپنے سردار کے پاس پیش کرے اور سردار اس عورت کا بیان سن کر اور اس بیان کی تحقیق کر کے اس کے شوہر کے موت کا حکم دے اور اس عورت کو حکم دے کہ چار مہینے دس روز عدت بیٹھے، بعد اس کے اس کا ولی دوسرے سے نکاح کر دے۔ موطا امام مالک رحمہ اللہ میں ہے: ’’مالک عن یحییٰ بن سعید عن سعید بن المسیب عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ : أیما امرأۃ فقدت زوجھا فلم تدر أین ھو؟ فإنھا تنتظر أربع سنین، ثم تعتد أربعۃ أشھر وعشرا، ثم تحل‘‘[1]انتھی [امام مالک رحمہ اللہ یحییٰ بن سعید سے روایت کرتے ہیں ، وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں ، وہ عمر بن خطاب سے بیان کرتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں چلا گیا ہے، تو وہ چار سال اس کا انتظار کرے، پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر حلال ہوجائے] ’’’واتفق علی ذلک خمسۃ من الصحابۃ، منھم الخلیفۃ الراشد الناطق بالصواب عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ ، والخلیفۃ الراشد ذو النورین عثمان بن عفان رضی اللّٰه عنہ کذا قالہ الحافظ في فتح الباري، لأنہ منع حقھا بالغیبۃ فینوب القاضي منابہ في التسریح بإحسان، وھو مؤید بقولہ تعالیٰ:﴿فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ [البقرۃ: ۲۲۹] وقولہ تعالیٰ:﴿فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا﴾ [البقرۃ: ۲۳۱]
[1] موطأ الإمام مالک (۲/ ۵۷۵)