کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 444
دیں یا پھر ان کو طلاق دے دیں اور ساتھ اس مدت کا بھی نفقہ دیں ، جتنی مدت انھوں نے اپنی بیویوں کو روک کر رکھا ہے] اس حکم فاروقی کا (جو آیاتِ ثلاثہ مذکورہ کے عین مطابق اور ان سے مستنبط ہے) خلاف کسی امام یا مجتہد سے مروی نہیں کہ جو لوگ باوجود وسعت و استطاعت کے اپنی عورتوں کو نفقہ نہ دیں اور اس سے انکار کریں اور اس پر مصر رہیں ، ان کی عورتیں ان کے قیدِ نکاح میں بیٹھی رہیں اور وہ حاکمِ وقت سے طلاق کی درخواست نہ کریں ، لہٰذا اس عورت کا، جس کے بارے میں سوال ہے، یہ حق ہے کہ وہ فتویٰ کی دستاویز سے حکامِ وقت سے درخواست کرے کہ وہ اس کے شوہر کو اس کے حقوق جانی و مالی ادا کرنے پر مجبور کریں یا اس کو طلاق دینے پر مجبور کریں ۔ وہ اگر طلاق نہ دے تو حاکمِ وقت خود اس کی طرف سے عورت کو طلاق دے دے اور بعد عدت عورت کو دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کی اجازت دے۔ صورت مندرجہ سوال میں عورت مذکورہ حاکمِ وقت کے یہاں اس مضمون کا استغاثہ کرے کہ میرا شوہر نہ میرے حقوق ادا کرتا ہے اور نہ مجھے چھوڑتا ہے، لہٰذا میرے شوہر کو حکم دیا جائے کہ وہ یا تو میرے حقوق ادا کرے یا مجھے طلاق دے دے۔ اگر وہ ان دو امروں میں سے کوئی امر بجا نہ لائے تو حاکمِ وقت خود بقائم مقامی میرے شوہر کے مجھے طلاق دے دے۔ اس کے دلائل مجیب کے مذکور بالا جواب میں بما لا مزید علیہ مرقوم ہیں ۔ فمن شاء فلیرجع إلیھا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم کتبہ: محمد عبد اللّٰه الغازیفوري (۱۳؍ ذی الحجہ ۱۳۳۴ھ) سوال: زید اپنی زوجہ ہندہ کو عرصہ چار سال سے چھوڑ کر ملک دکن کی طرف چلا گیا اور اسی اطراف میں ہے اور اس درمیان میں خبر گیری نان و نفقہ کی نہ لی، اس درمیان میں ہندہ سے زنا بھی سرزد ہوا، یہاں تک کہ ایک لڑکا زنا سے پیدا ہوا۔ اب ہندہ نے بسبب نہ پوری ہونے حاجت اور نہ ملنے نان نفقہ کے عمرو سے نکاح کیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نکاح اول فسخ نہیں ہوا اور نہ عدت بیتی، اس وجہ سے نکاح ثانی جائز نہیں ۔ آیا شرعاً نکاح ثانی جائز ہوا یا نہیں ؟ در صورت عدمِ جواز کے ہندہ کو کیا کرنا چاہیے؟ آیا فسخ کرالے اور فسخ کون شخص کرے اور فسخ کرنے والا کن الفاظوں سے کہے اور بعد فسخ کے عدت بیٹھے یا نہیں ؟ جملہ مضمون کو خیال فرما کر جواب مع مواہیر مرحمت ہو۔ جواب: اس صورت میں ہندہ کا نکاح ثانی جائز نہیں ہوا، کیونکہ ہندہ بوقتِ نکاحِ ثانی شوہر دار عورت تھی اور شوہر دار عورت کا نکاح حرام ہے:﴿ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ﴾ [سورۂ نساء، رکوع ۴] یعنی شوہر دار عورتیں تم پر حرام کی گئیں اور جب نکاح ثانی جائز نہیں ہوا تو ہندہ شوہر اول کے نکاح میں علی حالہا باقی رہی۔ اب اس کو اختیار ہے کہ معلق رہے یا بذریعہ حاکمِ وقت و سردارانِ شہر کے جو دونوں کے خیر خواہ ہوں ، شوہر سے اپنا حق طلب کرے۔ اگر اس تشدد پر اس کی حق رسی ہوئی تو بہتر، ورنہ شوہر سے طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر طلاق نہ دے تو سرداروں کو مناسب ہے کہ ان دونوں میں تفریق کر دیں اور صورت تفریق کی یہ ہے کہ عورت سے کہہ دیں کہ تیرا گزران اس کے ساتھ نہیں ہوسکتا، اس لیے ہم لوگ تیرا نکاح فسخ کر دیتے ہیں ۔ پس جب سرداروں نے نکاح فسخ کر دیا تو عورت پر لازم ہے کہ تین حیض