کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 443
دوسرے اس وجہ سے کہ وہ مال (مہر و نفقہ) خرچ کرتے ہیں ، جس سے صاف ثابت ہے کہ اگر کوئی شوہر عورت کو باوجود وسعتِ مال مہر و نفقہ نہ دے تو اس کا حقِ حکومت باقی نہیں رہتا ہے اور عورت طلاق لینے کی مستحق ہوجاتی ہے۔ ایک آیت میں ارشاد ہے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی عدت گزرنے لگے تو تم ان کو دستور کے موافق مہر و خرچ دے کر روک لو یا دستور کے مطابق (اگر ان کو خرچ و مہر نہ دے سکو) اس کو چھوڑ دو اور ضرر رسانی کے لیے نہ تو خرچ دو نہ خلاصی کرو، مت روکو، تاکہ ان پر تعدی کرو۔ ﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ﴾ [سورۂ بقرۃ، رکوع ۲۹] [اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو، یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو، تاکہ ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے، سو بلاشبہ اس نے اپنی جان پر ظلم کیا] اس آیت کا صریح مفاد یہ ہے کہ خرچ نہ دینے کے ساتھ اس کو نکاح میں پھنسا رکھنا ظلم ہے، جس سے خلاصی پانے اور طلاق لینے کا عورتوں کو حق حاصل ہے۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے کہ مطلقہ عورتوں کو اگر پھر نکاح میں لانا چاہو تو جہاں خود رہتے ہو، وہاں ان کو بساؤ اور ان کو ضرر نہ پہنچاؤ، تاکہ اس پر تمھاری طرف سے تنگی ہو (نہ کھانے کو دو، نہ دوسرے شخص سے نکاح کرنے دو)۔ ﴿اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْھُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْھِنَّ﴾ [سورۂ طلاق: ۶] [انھیں وہاں سے رہایش دو، جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لیے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو] یہ آیت بھی صاف مشعر و مثبت ہے کہ نکاح میں لانا اس صورت میں جائز ہے کہ عورت کو اس کا حقِ سکنیٰ و نفقہ شوہر ادا کرے۔ اگر ایسا نہ کرے تو عورت کو طلاق لینے کا استحقاق حاصل ہے۔ انھی قرآنی آیات سے استنباط کر کے فاروق اکبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سپہ سالاروں کے نام فرمان جاری کیا تھا کہ جو لوگ اپنی عورتوں سے غائب ہیں ، وہ یا تو ان کو خرچ بھیجیں یا ان کو طلاق دیں اور جس قدر عرصہ انھوں نے اپنی عورتوں کو نکاح میں رکھا ہے، اس قدر کا خرچ بھی بھیج دیں ۔ ’’عن عمر عند الشافعي و عبد الرزاق و ابن المنذر أنہ کتب إلی أمراء الأجناد في رجال غابوا عن نسائھم إما أن ینفقوا وإما أن یطلقوا، ویبعثوا نفقۃ ما حبسوا‘‘ (نیل الأوطار، ص: ۲۶۳) [امام شافعی، عبد الرزاق اور ابن المنذر رحمہم اللہ عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے لشکروں کے امرا کو ان مردوں کے بارے میں خط لکھا، جو اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ کر گئے ہوئے ہیں کہ یا تو وہ ان کو نفقہ