کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 442
الزوج یؤجل سنۃ، ثم یفسخ قیاسا علی العنین۔ فھل تحتاج المرأۃ إلی الترافع إلی الحاکم؟ روي عن المالکیۃ في وجہ لھم أنھا ترافعہ إلی الحاکم لیجبرہ علی الإنفاق أو یطلق عنہ‘‘ (نیل الأوطار: ۶/ ۲۶۵) ’’وإلیہ ذھب جمھور العلماء، کما حکاہ صاحب البحر عن علي و عمر وأبي ھریرۃ والحسن البصري وسعید بن المسیب و حماد و ربیعۃ ومالک و أحمد بن حنبل والشافعي والإمام یحییٰ۔ وحکی صاحب الفتح عن الکوفیین أنہ یلزم المرأۃ الصبر، وتتعلق النفقۃ بذمۃ الزوج، وحکاہ في البحر عن عطاء والزھري والثوري والقاسمیۃ وأبي حنیفۃ وأحد قولي الشافعي‘‘ (نیل الأوطار: ۶/ ۲۶۴) اس حدیث کو امام احمد و بخاری و مسلم و دار قطنی نے روایت کیا ہے اور کتاب نیل الاوطار میں کہا ہے کہ ظاہر دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف خاوند کے نادار اور عورت کو خرچ دینے سے ناچار ہوجانے پر عورت کو حق فسخِ نکاح حاصل ہوجاتا ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ شوہر کو کچھ مہلت بھی دی جائے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ شوہر کو ایک ماہ کی مہلت دی جائے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ تین دن کی مہلت دی جائے، چوتھے دن کے شروع میں عورت کو فسخِ نکاح کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ امام حماد شوہر نامرد کے حکم پر قیاس کر کے ایک سال کی مہلت دیتے ہیں ۔ پھر کہا کہ کیا عورت کو فسخِ نکاح کے لیے حاکم کی طرف مرافعہ کی حاجت ہے؟ مالکیہ سے روایت ہے کہ عورت حاکم کی طرف رجوع کرے کہ وہ اس کو خرچ دینے پر مجبور کرے یا اس سے طلاق دلوائے۔ یہ حکم استحقاقِ فسخِ نکاح بوجہ ناداری و ناچاری شوہر اصحاب نبویہ میں حضرت عمر فاروق و علی مرتضی و حضرت ابوہریرہ سے اور تابعین میں حسن بصری و سعید بن مسیب سے اور ائمہ میں حماد و ربیعہ و مالک، امام شافعی وغیرہ سے منقول ہے اور ائمہ کوفہ وغیرہ کہتے ہیں کہ عورت کو صبر کرنا لازم ہے، اسے قرض لے کر گزارا کرنا چاہیے، جس کا ادا کرنا شوہر کے ذمہ ہوگا۔ یہ اختلاف بعض ائمہ کا اس صورت میں ہے کہ شوہر خرچ دینے سے عاجز و ناچار و نادار ہوجائے اور اگر کوئی شوہر باوجود استطاعت کے عورت کو خرچ نہ دے اور دوسری عورت سے جائز یا ناجائز تعلق پیدا کر کے اپنی عورت منکوحہ کو محض ضرر رسانی کی نیت سے معلق کر رکھے اور خرچ نہ دے تو ایسے شوہر سے عورت کو طلاق لینے کے استحقاق میں کسی امامِ مذہب کا اختلاف ثابت اور معلوم نہیں ہے اور قرآن شریف اس ضرر رساں کو ظالم ٹھہراتا ہے اور عورت کا استحقاقِ طلاق ثابت کرتا ہے۔ ایک آیتِ قرآن میں ارشاد ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ایک تو قدرتی فضیلت کی رو سے حکومت کا حق حاصل ہے: ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ [سورۃ نساء: ۳۴] [مرد عورتوں پر نگران ہیں ، اس وجہ سے کہ الله نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی]