کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 441
سوء اً؟ قالت: معاذ اللّٰه ۔ قال: فاملکي علیک نفسک، فإنما ھو البرید إلیہ، فبعث إلیہ، ثم دخل علی حفصۃ فقال: إني سائلک عن أمر قد أھمني فافرجیہ عني: کم تشتاق المرأۃ إلی زوجھا؟ فخفضت رأسھا واستحیت۔ قال: فإن اللّٰه لا یستحي من الحق فأشارت بیدھا ثلاثۃ أشھر، وإلا فأربعۃ أشھر، فکتبہ عمر رضی اللّٰه عنہ أن لا تحبس الجیوش فوق أربعۃ أشھر‘‘[1]انتھی ایک عورت نے اپنے خاوند کی شکایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کی کہ وہ نماز روزہ میں مشغول رہتا ہے (یعنی اپنی عورت کا حق ادا نہیں کرتا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو چوتھے دن اپنی عورت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ طواف کر رہے تھے کہ ایک عورت نے اَشعار میں اپنے خاوند کے فراق پر اشتیاق ظاہر کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تجھے کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ نے میرے خاوند کو کئی مہینوں سے باہر بھیجا ہوا ہے، اس لیے میں فراق کی وجہ سے اس کی مشتاق ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ تو صبر کر، میں قاصد اس کی طرف بھیجتا ہوں اور آپ حفصہ کے پاس، جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم تھیں ، پہنچے اور ان سے مسئلہ دریافت کیا کہ کتنے عرصہ کے بعد عورت اپنے خاوند کا اشتیاق کر سکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: تین ماہ یا نہایت چار ماہ، اس پر حضرت عمر نے سپہ سالاروں کے نام حکم جاری کیا کہ چار ماہ سے اوپر لشکر گھروں سے روکے نہ جائیں ۔ ان احکامِ قرآنی کا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صادر فرمائے ہیں ، صاف اور صریح مفاد ہے کہ جو شخص زوجہ کے پاس جانے سے انکار کرے اور اس پر مصر رہے تو اس کی زوجہ کو طلاق لینے کا استحقاق ہے کہ وہ حاکمِ وقت کی طرف رجوع کرے اور اس کے حکم سے طلاق لے، اگر خاوند اپنے ظلم پر قائم رہے۔ حق ادا کرنے کی شارع نے کوئی میعاد مقرر نہیں کی ہے اور عورت کو ہر وقت شوہر سے یہ کہنے کا اختیار دیا ہے کہ تو مجھ کو کھانے کو دے یا طلاق دے۔ قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( امرأتک ممن تعول، تقول: أطعمني وإلا فارقني )) [2] (رواہ أحمد والدارقطني و رواہ الشیخان في الصحیحین) [رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھاری بیوی ان لوگوں میں شامل ہے، جس کی کفالت و پرورش کے تم ذمے دار ہو۔ وہ کہتی ہے: مجھے کھلاؤ یا مجھے (اپنے نکاح سے) الگ کر دو (یعنی طلاق دے دو)] ’’وظاھر الأدلۃ أنہ یثبت الفسخ للمرأۃ بمجرد عدم وجدان الزوج لنفقتھا، بحیث یحصل علیھا ضرر من ذلک، فقیل: إنہ یؤجل الزوج مدۃ، فروي عن مالک أنہ یؤجل شھرا، وعن الشافعیۃ ثلاثۃ أیام، ولھا الفسخ في أول الیوم الرابع، وروي عن حماد أن
[1] مصنف عبد الرزاق (۷/ ۱۵۱) تاریخ الخلفاء للسیوطي (ص: ۱۲۴) [2] مسند أحمد (۲/ ۵۲۷) سنن الدارقطني (۳/ ۶۹۵) اس حدیث میں ’’تقول: أطعمي وإلا فارقني‘‘ مرفوع نہیں ، بلکہ سیدنا ابوہریرہt کے بیان کردہ الفاظ ہیں ۔ دیکھیں : صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۰۴۰)