کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 44
الحال استفسار است کہ قول شخص اول صحیح است یا شخص آخر بہ تقدیر اول جواب نظر مطلوب است بر تصدیر ثانے تصدیق و تصحیح آں ۔ [ایک شخص کہتا ہے کہ کلمۂ توحید یعنی "لا إلٰہ إلا اللّٰه "کا حقیقی معنی اور تحقیقی مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز غیرِ حق نہیں ہے، بلکہ حقیقت کے اعتبار سے تمام اشیا اس کا عین ہیں ، اگرچہ تعین و تشکل کے اعتبار سے غیر ہیں ۔ سابقہ علما میں سے جو اس معنی کے قائل نہیں تھے، ان کے حق میں وہ کہتا ہے کہ مشرق و مغرب، شمال و جنوب اور سلف و خلف کے تمام محدثین، مفسرین اور جملہ فقہاے متکلمین نے کلمۂ طیبہ کو کلمۂ خبیثہ کے ساتھ بدل دیا ہے، یعنی"لا إلٰہ إلا اللّٰه "اور " لا إلٰہ غیر اللّٰه " کو "لا إلٰہ إلا غیر اللّٰه "کے ساتھ بدل دیا ہے اور توحید کے راہِ مستقیم سے اپنا پاؤں ہٹا لیا ہے۔ دوسرا شخص اس کے اس قول کو محلِ نظر ٹھہراتا ہے کہ مذکورہ بالا معنی دقیق ترین مسائل میں سے ہے اور ایسا دقیق مسئلہ ہر اَن پڑھ اور دانش مند کی ابتدائی تعلیم نہیں بن سکتا، حالاں کہ کلمہ طیبہ کا حقیقی معنی ہر اَن پڑھ اور دانش مند کی ابتدائی تعلیم ہے۔ پس لا محالہ کلمہ طیبہ کا معنی وہ نہیں ہے جو ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ دوسرا شخص کہتا ہے کہ کلمہ طیبہ کی ترکیب ’’لا کاتب إلا زید‘‘ اور "لا خاتم النبیین إلا محمد" کی طرح ہے۔ جس طرح ان ہر دو جملوں کا مفہوم یہ ہے کہ صفتِ کتابت زید میں منحصر ہے اور ختمِ نبوت کی صفت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں منحصر ہے، ان کے غیر میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے، اسی طرح "لا إلٰہ إلا اللّٰه "کا معنی سمجھنا چاہیے۔ وہ اس طرح کہ الٰہ کا معنی معبود ہے، لہٰذا کلمہ طیبہ کا معنی یہ ہوا کہ "لا معبود إلا اللّٰہ’یعنی صفتِ معبودیت الله تعالیٰ میں منحصر ہے، اس کے غیر میں یہ صفت نہیں ۔ مشرکین کا اعتقاد یہ تھا کہ الله تعالیٰ اور اس کی دوسری مخلوق صفتِ معبودیت میں مشترک ہیں ، لہٰذا وہ الله کے سوا دوسروں کی بھی عبادت کرتے تھے۔ کلمہ طیبہ ان کے اس عقیدے کو رد کرنے کے لیے نازل ہوا۔ چنانچہ "لا إلٰہ إلا اللّٰه" کا معنی اس کے علاوہ نہیں ہے کہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ہے۔ جس طرح "لا کاتب إلا زید"کا معنی ہے کہ زید ہی کاتب ہے۔ چنانچہ اہلِ اسلام علماے کرام کے حق میں یہ گمان کرنا کہ انھوں نے کلمۂ طیبہ کو کلمۂ خبیثہ کے ساتھ بدل دیا ہے اور وہ ایسا کر کے راہِ مستقیم سے ہٹ گئے ہیں ، گمان کرنے والے کی نافہمی ہے اور اس کا ایمان تلف ہونے کا خدشہ ہے۔ واللّٰہ أعلم وعلمہ أتم و أحکم۔ اب یہ سوال ہے کہ پہلے شخص کا قول صحیح ہے یا دوسرے آدمی کی بات درست ہے؟ پہلے کا قول درست نہ ہونے کی صورت میں محلِ نظر ہونے کا سبب مطلوب ہے اور دوسرے کی بات صحیح ہے تو اس کی تصدیق و تصحیح درکار ہے] جواب :قول شخص آخر صحیح است، وقول شخص اول از صحت بمراحل دورست۔ واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔