کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 438
جواب: اس صورت میں حاکم سے زید اور ہندہ کے درمیان تفریق کراکر ہندہ کا کہیں دوسرا نکاح کر دیا جائے، بلوغ المرام میں ہے: ’’عن سعید بن المسیب في الرجل لا یجد ما ینفق علیٰ أھلہ؟ قال: یفرق بینھما۔ أخرجہ سعید بن منصور عن سفیان عن أبي الزناد، قال: قلت لسعید بن المسیب: سنۃ؟ قال: سنۃ، وھذا مرسل قوي‘‘[1] [سعید بن المسیب سے اس آدمی کے متعلق مروی ہے، جو اپنے اہل پر خرچ کرنے کو مال نہیں پاتا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔ اس کو سعید بن منصور نے سفیان سے بیان کیا ہے، انھوں نے ابو الزناد سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے سعید بن المسیب سے پوچھا: کیا یہ سنت ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں سنت ہے۔ یہ قوی مرسل ہے] ’’سبل السلام شرح بلوغ المرام‘‘ (۲/ ۱۲۷) میں ہے: ’’ومراسیل سعید معمول بھا، لما عرف من أنہ لا یرسل إلا عن ثقۃ‘‘ انتھی [مراسیلِ سعید معمول بہا ہیں ، کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے ارسال کرتے ہیں ] نیز اسی صفحہ میں ہے: ’’وقد أخرج الدارقطني والبیھقي من حدیث أبي ھریرۃ مرفوعاً بلفظ: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في الرجل لا یجد ما ینفق علی امرأتہ قال: (( یفرق بینھما ))‘‘ [2] [امام دارقطنی اور بیہقی رحمہما اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ان الفاظ میں روایت کی ہے: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق فرمایا، جسے اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے لیے مال میسر نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے] اگر زید نادار نہ ہو اور لاپتا ہو تو مفقود الخبر کا حکم جاری ہوگا، وہ یہ کہ اس صورت میں حسبِ حکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ و حضرت عثمان رضی اللہ عنہ زید اور ہندہ کے درمیان تفریق کراکر اور عدت کے ایام (چار مہینے دس روز) گزار کر ہندہ کا کہیں دوسرا نکاح کر دیا جائے اور یہی قول امام مالک رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ ہدایہ میں ہے: ’’قال مالک رحمہ اللّٰه : تم لہ أربع سنین، یفرق القاضي بینہ وبین امرأتہ، وتعتد عدۃ الوفاۃ، ثم تتزوج من شاء ت لأن عمر رضی اللّٰه عنہ فعل في الذي استھوتہ الجن بالمدینۃ‘‘[3] اھ
[1] بلوغ المرام (۱۱۵۸) نیز دیکھیں : سنن سعید بن منصور (۲/ ۵۵) [2] سبل السلام للصنعاني (۳/ ۲۲۴) [3] الھدایۃ (۲/ ۱۸۱)