کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 437
علیٰ أنفسھما منہ وتصدقا )) [1] [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک آدمی نے کسی شخص سے زمین خریدی۔ زمین کے خریدار کو زمین سے سونے سے بھرا ہوا ایک مٹکا ملا۔ زمین خریدنے والے نے اس (فروخت کنندہ) سے کہا: تم مجھ سے اپنا سونا لے لو، کیونکہ میں نے تجھ سے زمین خریدی ہے، سونا نہیں خریدا۔ اس زمین (بیچنے) والے نے کہا کہ میں نے تجھے زمین بیچی اور جو کچھ اس میں تھا (وہ بھی ساتھ ہی بیچا) چنانچہ وہ ایک (تیسرے) آدمی کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے تو اس نے پوچھا: کیا تمھاری کوئی اولاد ہے؟ ایک نے کہا: میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میری ایک لڑکی ہے۔ اس (فیصلہ کرنے والے) نے کہا: لڑکے کا نکاح لڑکی سے کر دو۔ اس (مال) میں سے ان دونوں کی ذات پر بھی خرچ کرو اور صدقہ بھی کرو] ظاہر ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود اس واقعہ کے بیان فرمانے سے اس کے سوا اور کیا ہے کہ میری امت بھی ایسی صورت میں ایسا ہی کرے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ صورت اس واقعہ کی صورت مسؤلہ سے ملتی جلتی ہے، کیونکہ جیسا کہ اس میں ہے کہ مشتری دیتا ہے اور بائع قبول نہیں کرتا، اسی طرح اس میں ہے کہ ایک فریق کھانا کھلانا چاہتا ہے اور دوسرا فریق عذر کرتا ہے۔ پس کیا خوب ہوتا کہ اس صورت میں بھی اسی فیصلے کے مطابق عمل کیا جاتا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا موجب ہوتا اور آپ کی خوشی الله تعالیٰ کی خوشی کی موجب ہوتی۔ اللّٰهم وفقنا لما تحب وترضیٰ۔ آمین۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۹؍ ربیع الأول ۱۳۳۰ھ) اگر خاوند کئی سال بلا نان و نفقہ بیوی کو چھوڑ کر روپوش ہو جائے؟ سوال: زید کا نکاح ہندہ سے ہوئے سات برس ہوئے۔ زید نکاح سے پندرہ روز بعد اپنی بیوی چھوڑ کر چلا گیا۔ تقریباً ایک سال انتظار کر کے ہندہ کے باپ نے اس کی جانب سے زید پر نان و نفقہ و دینِ مہر کی عدالت میں نالش کر دی۔ عدالت نے جبراً اس کو بذریعہ حکم نامہ طلب کیا، یہاں تک کہ اس پر مہر وغیرہ کی ڈگری ہوگئی، زید مقدمہ فیصل ہونے سے پہلے ہی فرار ہوگیا، اب تک اس کو روپوش ہوئے اور فرار ہوئے پانچ سال ہوگئے، کوئی خط وغیرہ اپنی بیوی کے پاس نہیں روانہ کیا، یہاں تک کہ سمن سرکاری طور پر اس کی گرفتاری کا اور خطوط رجسٹری شدہ اس کے پاس (یعنی جہاں اس کا پتا پایا) بھیجا، مگر سب واپس آئے تو اس صورت میں کہ وہ اپنی بیوی کو نہ تو نان و نفقہ دے اور نہ اس کے پاس آئے اور نہ خط وغیرہ بھیجے اور نہ طلاق دے، اس کا باپ چاہتا ہے کہ اس کا نکاح کہیں دوسری جگہ کر دے، اس میں قرآن و حدیث کے رو سے کیا حکم ہے؟
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۲۸۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۲۱)