کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 42
غیر اللہ کی نذر و نیاز اور گیارھویں کا ختم:
سوال: 1۔ جانور زندہ بنام بڑے پیر صاحب کے نامزد کر کے رکھنا، گیارھویں تاریخ کو نہلا کے ذبح کرنا اور کھانا پکا کے زمین لیپ پوت کے تھال بھر کے رکھنا اور بڑی تعظیم سے سامنے کھڑے ہو کے اس کھانے پر فاتحہ پڑھنا اور اس وقت پیر صاحب کو وہاں حاضر و ناظر فریاد رس جان کے مرادیں مانگنا درست ہے یا نہیں ؟
2۔ وقت مصیبت کے بڑے پیر صاحب کو پکارنا کہ یا بڑے پیر میری مراد بر لائیے اور وقت پکارنے کے پیر صاحب کو سننے والا جاننا درست ہے یا نہیں ؟
3۔ قبروں پر عرس کرنا اور چراغ بہت جلانا، روشنی ہر طرح کی کرنا اور تیل بہت خرچ کرنا اور کھانا مٹھائی چڑھانا اور راگ گانا اور قوال خوانی کرانا اور اہلِ قبور کو سننے والا جاننا درست ہے یا نہیں ؟
4۔ مٹھیا کا چاول واسطے خرچ متعلق مسجد کے نکالا جاتا تھا، اس کو جو آدمی منع کر کے اُس چاول سے نیاز گیارھویں کرنے کو کہے، وہ آدمی کیسا ہے؟
جواب: جانور زندہ بنام بڑے پیر صاحب کے نامزد کر کے رکھ کر گیارھویں تاریخ کو نہلا کے ذبح کر کے اور کھانا پکا کے زمین لیپ پوت کے تھال بھر کے رکھ کر بڑی تعظیم سے کھڑے ہو کے اس کھانے پر فاتحہ پڑھنا اور اس وقت پیر صاحب کو وہاں حاضر و ناظر و فریاد رس جان کے مرادیں مانگنا اور وقت مصیبت کے بڑے پیر صاحب کو پکارنا کہ یا بڑے پیر میری مراد برلائیے اور وقت پکارنے کے پیر صاحب کو سننے والا جاننا اور قبروں پر عرس کرنا، چراغ بہت جلانا، روشنی ہر طرح کی کرنا اور کھانا مٹھائی چڑھانا اور اہلِ قبور کو سننے والا جاننا؛ یہ سب امور نادرست ہیں ۔ کسی آیت یا مستند حدیث سے یا عملِ صحابہ سے ثابت نہیں ۔ اس لیے یہ بدعت و ضلالت ہیں ۔ جو شخص ان امور کو جائز بتائے، محض جاہل اور قرآن و حدیث سے بے خبر ہے۔ اس قسم کے امور نہ خود حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیے ہیں نہ کسی کو ان کی تعلیم فرمائی ہے۔
جو شخص کہے کہ یہ امور درست ہیں ، اس کو جھوٹا جاننا چاہیے۔ وہ محض پیٹ کے واسطے بندگانِ خدا کو بہکاتا ہے اور یہ جان لینا چاہیے کہ الله تعالیٰ نے آیتِ کریمہ:﴿وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ﴾ [سورۃ الأحزاب رکوع: ۵] [1]
[1] "فقد تبین من ھذا التجریح والتتبع لطرق الحدیث أنھا کلھا واھیۃ جدا، کما قال الحافظ ابن حجر في التلخیص (ص: ۱۲۵) ولذلک فالحدیث یبقیٰ علیٰ ضعفہ، مع کثرۃ طرقہ، لأن ھذہ الکثرۃ الشدیدۃ الضعف في مفرداتھا لا تعطي الحدیث قوۃ في مجموعھا، کما ھو مقرر في علم الحدیث، فالحدیث مثل صالح لھذہ القاعدۃ التي قلما یراعیھا من المشتغلین بھذا العلم الشریف" (إرواء الغلیل: ۲/ ۳۰۱)
خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے، جو قطعاً قابلِ احتجاج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا سوال میں جس شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کی بابت سوال کیا گیا ہے، سائل کے حسبِ تصریح اس کے عقیدے میں غیر اﷲ کی عبادت اور اس کے لیے قدرت و تصرف جیسے شرکیہ عقائد پائے جاتے ہیں ، جن کی موجودگی میں اس کے پیچھے نماز درست نہیں ، کیوں کہ بلاشبہہ یہ عقائد شرکِ اکبر میں داخل ہیں ۔
سورۃ الأحزاب [آیت: ۴۰]