کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 415
درست نہیں ہے، بالکل غلط ہے۔ شرع شریف میں کہیں اس کا پتا نہیں ہے۔ عورت مسلمہ کے نکاح کے لیے صرف اس قدر شرط ہے کہ مرد بھی مسلمان ہی ہو، غیر ملت کا شخص نہ ہو اور یہ کہ ولد الزنا بھی نہ ہو، کہیں سے یہ ثابت نہیں ہے، محض بے اصل ہے۔ اسی طرح عورت یا اس کے والدین یا اور لوگوں کا یہ کہنا کہ ولد الزنا دوزخی ہے، بھی غلط ہے۔ اصول شرع شریف سے یہ ہے کہ ایک شخص کے گناہ سے دوسرا شخص نہیں پکڑا جاتا، جو گناہ کرتا ہے، وہی پکڑا جاتا ہے۔ اس مضمون کی آیاتِ کریمات قرآن مجید میں بہت ہیں ، جیسے:﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ [الأنعام: ۱۶۴] [اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ اٹھائے گی] و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ دو بہنوں کو نکاح میں اکٹھا کرنا حرام ہے: سوال: زید نے بکر کی لڑکی سے نکاح کیا اور وہ لڑکی محل اول سے تھی۔ ایک لڑکی بکر کے محل ثانی سے ہے تو زید وہ لڑکی سے بکر کی، جو محل ثانی سے ہے، نکاح کرنا چاہتا ہے تو نکاح ثانی زید کا اس لڑکی سے زوجہ اول کے موجود رہتے ہوئے درست ہوگا یا نہیں ؟ جواب: ایسی حالت میں کہ زید کی زوجہ اولیٰ جو بکر کی لڑکی محل اول سے تھی اور ہنوز وہ زید کے نکاح میں ہے، زید کا نکاح بکر کی اس لڑکی سے، جو محل ثانی سے ہے، درست نہیں ہے، کیونکہ بکر کی یہ دونوں لڑکیاں آپس میں علاتی بہنیں ہیں اور دو بہنوں کا (عینی ہوں ، خواہ علاتی، خواہ اخیافی) نکاح میں اکٹھا کرنا درست نہیں ہے۔﴿وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ﴾ [سورۂ نساء، رکوع: ۴] یعنی دو بہنوں کا اکٹھا کرنا تم پر حرام کیا گیا۔ دو بہنوں کو نکاح میں اکٹھا کرنا اور ان کی اولاد کا حکم: سوال: ایک شخص نے اپنی بی بی کی حقیقی بہن سے نکاح کیا ہے، اب وہ شخص مرتکب حرام کاری کا ہے یا نہیں اور ہر دو مرد و عورت شرع شریف میں زانی قرار دیے جائیں گے یا نہیں اور جو لڑکا ان سے پیدا ہوا ہے، وہ حرامزادہ ہے یا نہیں اور آیت:﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ﴾ جس میں بیان ۱۴ عورتوں کا ہے، ان پر صادق آتی ہے یا نہیں اور جس کے نطفہ سے پیدا ہوا، اس سے محرومِ میراث ہے یا نہیں ؟ جواب: جب تک بی بی نکاح میں موجود رہی، تب تک اس کی بہن سے نکاح کرنا بحکم آیتِ کریمہ:﴿وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ﴾ حرام ہے اور جو شخص ایسا کرے، وہ مرتکب حرام کا ہے۔ اگر وہ دونوں باوجود علم حرمت کے ایسا کریں تو شرع شریف میں زانی اور زانیہ قرار دیے جائیں گے۔ اس کے بعد جو اُن سے لڑکا پیدا ہوگا، حرامزادہ ہوگا اور مرد زانی سے جس کے نطفہ سے وہ پیدا ہوا، محروم المیراث ہوگا، لیکن زانیہ سے محروم المیراث نہ ہوگا۔ زانیہ شرعاً اس کی ماں ہوگی اور وہ اس کا بیٹا۔ دونوں میں توارث جاری ہوگا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه